کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 7
التفسیر والتعبیر
مولانا عزیز زبیدی ، واربرٹن
سورۃ البقرہ
(قسط ۶)
وَمِنَ النَّاسِ۱؎ مَنْ يَقُولُ۲؎ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ
اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو منہ سے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائے۔ حالانکہ وہ ان پرایمان نہیں لائے۔
_____________________________
صورت و معنی: حروف مقطعات کا سب سے بڑا فائدہ’’خوئے تسلیم و رضا اور آمنا و صدقنا‘‘ میں حصول پختگی ہے، بلکہ قرآن حکیم سے استفادہ کرنے کی یہ شرط اولین بھی ہے۔ (الم)
ریب و تذبذب زہر قاتل ہے، تسلیم و رضا کے لیے بھی اور قرآن سے کسب فیض کے لیے بھی ، اس لیے پہلے اس سلسلے میں اطمینان حاصل کرلینا چاہیے۔ اگر دل کےکسی گوشہ میں یہ مرض موجود ہو تو پہلے اس سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہیے! (لاریب فیہ)
مندرجہ بالا دو مرحلوں کے بعد ہی دل میں ’’تقوی‘‘ کی وہ سکت پیدا ہوجاتی ہے جو اپنے اندر ہدایت جذب کرنے کاملکہ رکھتی ہے۔ (ھدی للمتقین)
ایمان بالغیب، اقامت الصلوٰۃ، انفاق فی سبیل اللہ، ماانزل پر ایمان اور آخرت کی جوابدہی کا احساس اور یقین ، تقویٰ کے بنیادی عناصر ہیں ، اسی کے ذریعے من جانب اللہ فیضان ہدایت کانزول ہوتا ہے او رانہی پر انسان کی دنیوی صلاح اور فلاح کا انحصار ہے۔ (اولئک ھم المفلحون)
جو لوگ بعض مصالح سیئہ کی بنا پر اڑ جاتے ہیں گو وہ محروم الایمان ہوتے ہیں مگر داعی حق کایہ فریضہ ہے کہ وہ ان کو تبلیغ جاری رکھے۔ (سواء علیہم ءانذرتھم ام لم تنذرھم)