کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 6
کی زبان سے نکلا: وداع و وصل جدا گانہ لذتے دارد ہزار بار برد ، ہزار بار بیا انہوں نےاقتدار کو دوبالا کرنے کے لیے بڑے بڑے جتن کیے، سفر و حضر میں جناب بھٹو کے ساتھ رہے کہ اقتدار کی ریوڑیاں تقسیم ہوں تو یہ محروم نہ رہیں ، وقت آیاتو گورنر بنے، گورنر بھی ’’حجری دور‘‘ کے، قرون مظلمہ کی تاریخ دہرا دی، جب محسوس ہوا کہ ’’گورنری‘‘ اور اس کارنگ کچھ پھیکا پڑنے کو ہے، رعب و داب دوآتشہ ہونے کی بجائے ڈاؤن ہونے والا ہے تو پوری برق رفتاری کے ساتھ گدی بدلی، قومی اسمبلی کی سیٹ کی قربانی دی کہ مزا کرکرہ ن ہو، وزیراعلیٰ بنے کہ شاید پہلے سے بھی کچھ ’’سوا‘‘ ہاتھ لگے۔ کروفر سلامت رہے دن دونی رات چوگنی ترقی ہو مگر آہ: ہم نے لاکھ ہی آشیاں بدلے ابرکی برق باریاں نہ گئیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا سچ فرمایا: نعمت المرضعۃ و بئست الفاطمۃ (بخاری) اقتدار کی ابتداء خوب اور انتہا بری ہوتی ہے۔ ’’بالکل یوں جیسے دودھ پلانے والی ماں جب تک دودھ پلاتی ہے اچھی لگتی ہے لیکن جب وہی ماں دودھ چھڑانے لگتی ہے تو بچے کی جان پر بن جاتی ہے۔ جناب کھر کی پوری ہسٹری، اقتدار سے پہلے، دوران اقتدار اور اقتدار کے بعد کی گھڑیاں ، مرقع عبرت ہیں ، جو لوگ چند روزہ اقتدار کے لیے بدحواس ہورہے ہیں ، انہیں ان کے انجام سے سبق لینا چاہیے۔ وہ خاص کر ان لوگوں کے انجام سے جو اقتدار کے دنوں میں بدمست اور غیر محتاط ہورہے۔ کھر صاحب کی علیحدگی، کچھ آخری حادثہ نہیں ہے کہ کہیں چلو چھٹی ہوئی بلکہ رونا یہ ہے کہ یہ اس جوڑ توڑ کی سروس کی بسم اللہ ہے، جس کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ خدا جانے اس کا کیا انجام ہو، او رملک کے سب سے بڑے صوبے بلکہ پورے ملک کو اس کا کل خمیازہ بھگتنا پڑے۔جو اَبر اُلٹا ہے، خدا جانے برق باریاں کتنی کرے۔ او ران کانتیجہ کیا نکلے۔ بہرحال خود اصحاب قصہ بھی حیران ہیں کہ خبر نہیں کل کیا ہو؟ خضر کیوں کر بتائے کیا بتائے اگر ماہی کہے، دریا کہاں ہے ٭٭٭