کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 5
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کامل سپردگی اور تسلیم و رضا کے پیکر ہونے میں اپنی مثال آپ تھے۔
صدق اور صدیقیت کے معنی واضح ہوجانے کے بعد اگر یہ کہہ دیا جائے کہ صدق کو تمام اخلاق فاضلہ میں مرکزی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے اور یہ سب کی روح ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔
ان چند باتوں کو سچائی کی اہمیت کے طور پر اوّلین حیثیت اس لیے دی گئی ہے کہ عموماً ’’صدق‘‘ کے بیان میں یہ حصہ بین السطور رہ جاتا ہے۔ واخرد عوانا الحمد للّٰہ رب العالمین۔
نعمت المرضعۃ و بئست الفاطمۃ
’’انا ولاغیری‘‘ کے جہاں نقارے بجتے ہیں وہاں ماتم کی دھنیں بھی بلند ہوتی ہیں ، جہاں دنیا کا دستور ہی کچھ ایسا ہے:
دریں چمن کہ بہاردخزاں ہم آغوش است
زمانہ جام بدست و جنازہ بردوش است
کل تک پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ جناب غلام مصطفی کھر، مملکت پاکستان کے سب سے بڑے اور سب سے عظیم صوبے کے سیاہ و سفید کے مالک تھے، آواز میں طنطنہ تھا، گونج تھی، گرج تھی، رفتار میں بلاکی شوخی تھی، نگاہ میں مستئ اقتدار کا خمار تھا، ان کی ہربات قانون تھی، قانون شکن تھی، ان کے ماتھے کی ہر شکن ملک و ملت کی تقدیر کی سطریں تصور کی جاتی تھی، جدھر کو رخ کرتے ادھر کو آسمان بدل جاتا، زمین بدل جاتی۔ ان کے اشارہ ابرو پر سمندر کی لہریں رقص کرتیں ،سیلاب کے رُک بدل جاتے، قائد پنجاب تھے،زندہ بات تھے۔ کھڑےہوتے تو قبروں سے مردے اُٹھ کھڑے ہوتے، حکم دیتے تو چاروں طرف سے ’’حق حق‘‘ کی صدائیں بلند ہوتیں ، قوم کے بدمعاش، ان کی آواز پر ان کے ملائکہ دکھائی دیتے ، سرجھکا کر پرمارتے، لبیک لبیک کاشور مچاتے، پھر وہ کاٹ کرتے کہ چشم زدن میں گستاخوں اور کافروں کے کشتوں کے پشتے لگ جاتے، حسین تھے، محبوب تھے، محبوب عوام تھے۔ قائد پنجاب تھے، ان کی لٹھ میں جان تھی، قہر الہٰی تھی، بنیا تھی، بلاکی قوت شامہ رکھتی تھی، سونگھ کر سب کچھ بتا دیتی اور فیصلہ سنا دیتی، مگر سنا ہے کہ:
وہ صاحب اب ’’غفرلہ‘‘ ہوگئے ہیں ۔ جاتے ہوئے خوب تڑھے ہیں ، بلبلائے ہیں ، بے وفاؤں کو اپنے ’’مظالم‘‘ کے یوں واسطے دیے جاسےقوم پر وہ بھی ان سے کوئی ’’کرم‘‘ تھے، اب نگاہوں میں سکنت، زبان میں لجاجت، بات میں ارادت، آواز میں سعادت مندی تھی، لٹھ گھمانے والے، قوم کو اب دعائیں دینے لگے۔ سفارشیں سننے والے اب سفارش کرنے کو اُٹھ دوڑے، الغرض جنہوں نے ان کے یہ دونوں دور دیکھے، بے ساختہ ان