کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 47
مجلس سماع کی ابتداء قرآن سے کرنی چاہیے او راسی پر ختم کرنی چاہیے۔ (ص ۱۰۷)
بعض مریدین نے مشائخ کو کہا کہ کیا مشائخ سماع نہیں کیا کرتے تھے۔ انہوں نےجواب دیا اگر تم ان جیسے ہوتو تم بھی سن سکتے ہو۔ (ص۱۰۸)
کتاب میں حکمت آمیز اور حکمت آموز جملے جابجا ملتے ہیں مثلاً۔
اگر علم، عمل سے خالی ہو تو وہ عقیم (بانجھ) ہے اور اگر عمل ، علم سے خالی ہو تو وہ سقیم ہے۔
تصوف کیا ہے؟ حضرت ابوبکر کتانی کہتے ہیں :
’’تصوف تمام تر اخلاق ہی کانام ہے جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں گے۔ اس کا تصوف زیادہ ہوگا۔‘‘
حضرت سہیل بن عبداللہ سے حسن خلق کے متعلق سوال کیا گیا۔ انہوں نےجواب دیا:
’’اونیٰ ترین اخلاق، تحمل اور ترک مکافات اور ظالم پر رحم او راس کے لیےدعا کرنا ہے۔ یہ اخلاق متصوفین کے ہیں نہ کہ جونام نہاد صوفیوں نے اختیارکررکھے ہیں کہ وہ طمع کو ارادہ اور سوئے ادب کا نام اخلاص رکھتے ہیں اور حق سےفروخ کو ’’شطح‘‘ کہتے ہیں اورمذموم چیزوں سےتلذذ کو تطبیب (آزمائش)کہتے ہیں ..... یہ صوفیاء کا طریقہ نہیں ہے۔‘‘ (ص۳۵)
جب خواہش نفسانی غالب ہوجائے تو عقل غائب ہوجاتی ہے۔(ص۴۵)
مترجم نے رجال کے بارے میں مفید حواشی لکھے ہیں ۔ ترجمہ دلچسپ ہے او رطباعت و کتابت ’’المعارف‘‘ کے روایتی انداز کے مطابق مثالی ہے۔
.............................
نام کتاب : تصوف اسلام
مؤلف : عبدالماجد دریابادی
ناشر : ’’المعارف‘‘ گنج بخش روڈ لاہور
قیمت : دس روپے
مولانا عبدالماجد دریا بادی کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔موصوف کی ابتدائی عمر تجدد پسندی اور فلسفہ زندگی کے عالم میں گزری او رہرمعاملے کو عقل کے ترازو میں تولتے تھے۔ بقول ان کے کسی زمانے