کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 46
پر زور دیا گیا ہے۔وضو وغیرہ کے مسائل میں بعض سنن پراس قدر زور دیا گیا ہے کہ آج فرائض وضو پر بھی اس قدر پابندی نہیں ہوتی۔ تاہم بعض صوفیاء نے مروجہ نظام ہائے اخلاق و ریاست کےاثرات قبول کیے اور تصوف، احسان و سلوک کے بجائے فلسفہ کی حدود میں داخل ہوگیا۔ ابن عربی کی کتب فلسفہ اور یونانی افکار سے مملو ہیں ۔ تصوف کے لٹریچر میں فلسفہ اور اخلاق دونوں پہلوبہ پہلو ہیں ۔ ڈاکٹر اقبال نے ایک مکتوب میں لکھا ہے: ’’تصوف کے ادبیات کا وہ حصہ جو اخلاق و عمل سے تعلق رکھتا ہےنہایت قابل قدر ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے طبیعت پر سوزوگداز کی حالت طاری ہے فلسفہ کا حصہ محض بیکار ہے او ربعض صورتوں میں میرے خیال میں قرآن کے مخالف۔‘‘ زیرنظر کتاب ’’آداب المریدین‘‘ کا اُردو ترجمہ ہے۔مؤلف شیخ ضیاء الدین سہروردی چھٹی صدی ہجری کے بلند مرتبہ اہل علم و نظر تھے۔سلسلہ سہروردیہ کے بانی شیخ شہاب الدین سہروردی ان کے بھتیجے تھے۔ ان کی یہ کتاب صوفیا کے حلقوں میں بطور نصاب پڑھی جاتی ہے خواجہ گیسودراز نے اس کتاب کاترجمہ کئی بار فرمایا او ریہ کتاب اکثر ان کےزیرمطالعہ رہتی تھی۔ کتاب کے مطالعہ سے صوفیائے کرام کے اعتقادات اور سلوک کے آداب معلوم ہوتے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں تصوف کا مفہوم کیا تھا اور صوفیہ کیاطریق کار اختیارکیے ہوئے تھے۔ کتاب ۴۲ فصول پرمشتمل ہے اور صوفیہ کا نقطہ نظر شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے۔ ’’آداب سماع‘‘ پرنسبتاً طویل فصل ہے۔ سماع کے بارے میں خود صوفیاء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک جماعت تو سماع کی سرے سےمخالف ہے اور اس عمل کو حرام قرار دیتی ہے جو جماعت سماع کی قائل ہےان کے نزدیک بھی ’’سماع ‘‘کچھ پابندیوں کا متقاضی ہے۔ حضرت علی ہجویری نے اپنی تالیف ’’کشف المحجوب‘‘ میں ان کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔’’آداب المریدین‘‘ کامؤلف بھی ان پر روشنی ڈالتا ہے۔ سماع صرف اس شخص کیلئے جائز ہے جس کادل زندہ اور نفس مردہ ہو لیکن جس کا نفس زندہ اوردل مردہ ہو تو اس کے لیے جائز نہیں ۔ (ص۱۰۳) سماع ایک ایسی چکنی پھسلنے والی زمین ہے جس پر صرف علماء کے قدم ہی ثابت رہ سکتے ہیں ۔ ص (۱۰۴) سماع میں مشائخ لڑکوں کی موجودگی کوناپسند کرتے ہیں ۔ (ص۱۰۵)