کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 4
ان کا قال و حال بن جاتا ہے وہی ’’صدیق‘‘ ہیں ۔ اسی حقیقت کو دوسری جگہ یوں واضح فرمایا: ﴿أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (۲) وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ﴾ (العنکبوت:۲،۳) کیا لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ان کا زبان سے امنا کہہ دینا کافی ہے اور وہ زبانی جمع خرچ سے ہی نجات حاصل کرلیں گے(واضح ہو کہ) اللہ تعالیٰ نے پہلی امتوں کی آزمائش کی تھی اور اب بھی سچ کہنے والوں کو جھوٹوں سے ممتاز کرے گا۔ ان آیات کے مفہوم سے بالکل واضح ہے کہ ’’صدق‘‘ تسلیم و رضا اور راست روی کے بغیرتکمیل نہیں پاتا۔ جن لوگوں نے اس مفہوم کومدنظر رکھا انہوں نے اس کی حقیقت کو اپنایا اور صدیق قرار پائے ابھی چندروز بعد مسلمان خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد گار منائیں گے جسے عیدالاضحیٰ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ کیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام کی وہی تسلیم و رضا اور صدق کی یادگار ہے جس کی بناء پر انہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ’’صدیق‘‘ کا خطاب ملا۔ قرآن نے مختلف مقامات پر یہ ساری روئیداد یوں پیش کی ہے: ﴿إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (البقرہ:۱۳۱) ﴿وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ﴾ (البقرہ:۱۲۴) ﴿ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا﴾ ( مریم :۴۱) یعنی اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو مسلمان بننے کا حکم فرمایا تو ابراہیم نے رب العالمین کافرمانبردار بننے کا اقرار کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی ہر طرح سے آزمائش کی تو تن من دھن سے پورے اترے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ’’صدیقیت‘‘ کے خلعت سے نوازا۔ عورتوں میں عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو قرآن ’’صدیقہ‘‘ کے لقب سے یاد کرتا ہے صنف نازک کی کمزوری کے مدنظر کٹھن حالات میں مریم علیہا السلام کااعلیٰ کردار ان کی صداقت کی منہ بولتی تصویر ہے انہی نفوس قدسیہ کی سچی یاد کو قرآن ’’لسان صدق‘‘ (مریم :۵۰)اور اسی طرح کے راست اقدام کو ’’قدم صدق‘‘ (یونس:۳) سےس تعبیر کرتا ہے۔ زبان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی خطاب خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ او راُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو ملے۔ ظاہر ہے کہ اس خصوصی خطاب کی وجہ سے صر ف یہ نہ تھی کہ سچ بولنے میں ان کا مرتبہ دوسرے صحابہ سے بلند تر تھا بلکہ اس خطاب کے یہ دونوں اس لیے مستحق ہوئے کہ