کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 37
جناب اختر راہی ، ایم اے سلسلہ مصنفین درس نظامی
مُلّا صدر الدین شیرازی
محمد بن ابراہیم ملقب بہ صدر الدین شیرازی ۹۷۹ھ یا ۹۸۰ھ میں شیراز میں پیدا ہوئے۔عام طور پر اخوند ملّا صدرا یاصد رالتالہین کے نام سے معروف ہیں ۔ ملا موصوف بااثر اور صاحب حیثیت خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ والدین کے اکلوتے بیٹے تھے اس لیے والد نے ذہین اورمحنتی بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ابتدائی تعلیم شیراز میں ہوئی۔ والد کے انتقال کےبعد اصفہان چلے گئے۔
اصفہان اس زمانے میں ایران کا دارالحکومت تھا۔ صفوی خاندان کی تشویق اور دلچسپی کی بنا پر اصفہان کے مدرسوں میں علم و فضل کا چرچا تھا۔ علم کے سوتے جاری تھے او رطالبان علم ملک کے گوشے گوشے سے اصفہان کی علمی مجلسوں کا رخ کرتے تھے۔ بلا موصوف نے شیخ بہاؤ الدین عاملی (م۱۰۳۱ھ) اور ایرانی فلسفی میر باقر داماد (م۱۰۴۱ھ) کے حضور زانوئے تلمذ طے کیا۔ایک روایت ہے کہ اس عرصے میں میرابوالقاسم مندرسکی سے بھی اکتساب علم کیا جو عارف و زاہد ہونےکے علاوہ بے نظیر ریاضی دان تھے۔
زمانے کا دستور ہےکہ ذہین اور قابل لوگوں کے حاسد پیدا ہوجاتے ہیں ۔ملا صدر ابھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں ۔ حاسدوں کی ریشہ دوانیوں سے تنگ اکر گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ اصفہان سےنقل سکونت کرکے ’’قم‘‘ کے نزدیک ’’کھک‘‘ نامی گاؤں میں کافی عرصہ تنہائی کی زندگی گزاری اورمجاہدہ نفس میں مشغول رہے۔غالباً صدر الدین شیرازی کی طبیعت میں فلسفیوں کی روایتی گرم مزاجی نہ ہونے کی وجہ یہی مجاہدہ نفس اور ریاضت ہے۔
مثل ہے کہ ’’مشک آنست کہ خود ببویدنہ کہ عطاربگوید‘‘ ملاموصوف کی شہرت پھیلنے لگی ۔ دور دور سے طالبان علم ’’قم‘‘ حاضر ہونے لگے۔ اس عرصے میں فارس کے حاکم اللہ دردی خان نے ان کے آبائی وطن شیراز میں ایک درس گاہ قائم کی اور ملاکو وطن آکرخدمات علمی انجام دینے کی دعوت دی۔ شاہ عباس ثانی کی سفارش پر ملا نے اس دعوت کوقبول کرلیا اور شیراز میں رونق مجلس علم بن گئے۔ان کے زیرنگرانی مدرسہ اللہ دردی خان اہم علمی مرکز بن گیا۔اور ’’مدرسہ خان ایران‘‘ کے نام سے اس کی شہرت دور و نزدیک پھیل گئی۔
وفات: کہاجاتا ہے کہ ملا موصوف نے سات بار پاپیادہ حج کیا اور ساتویں بارسفر حج سے واپسی