کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 31
مظاہرہ کرنے سے پرہیز ہی کیا ہوتا تو کیا بہتر ہوتا۔ بھارت میں مسلم کشی کی جو گرم بازاری ہے او ربرسوں سےجاری ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں محب وطن پاکستانیوں کاجو حشر کیا گیااور کیا جارہا ہے، وہ شاید یہودیوں کا بخت نصر کے ہاتھوں بھی نہیں ہوا ہوگا، فلپائن میں مسلم کے خون کی جو ہولی کھیلی جارہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں ، کشمیری مسلمانوں کو جس طرح اقلیت میں تبدیل کرنےکی سازشیں کی جارہی ہیں ،حیدر آباد دکن اور دوسری مسلم اکثریت کی ریاستوں میں مسلمانوں کو جس طرح غلامی کے شکنجہ میں کس دیا گیا ہے، اب یہ کوئی راز نہیں رہا، اگر یہ کانفرنس ان مظلوموں کے سلسلے میں بھی ہمدردی کے دو بول پاس کردیتی تو کون سی قیامت قائم ہوجاتی؟ کانفرنس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں ایک راہنما کاانتخاب بھی ہونا چاہیے، جس کی کمان میں اس کارروائی کا سفر جاری رکھا جاسکے۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ شرکاء سربراہوں کو یہ صدا کچھ اجنبی سی محسوس ہوئی یعنی وہ چاہتے ہیں کہ عالم اسلامی کے جس اتحاد کے لیے اتنے جانکاہ جتن کیے جارہے ہیں اس کی نوعیت ’’آوارہ اتحاد‘‘ کی ہو۔ جس کانفرنس کے معزز شرکاء کے سوچنے کا انداز یہ ہو، غورفرمائیے! اس کا انجام کیا ہوگا؟ عالم اسلامی کے اتحاد کے لیے جمال الدین افغانی، علامہ اقبال،طباطبائی جیسے اکابر کے نام استعمال کیے جارہے ہیں ، کیا کبھی یہ بھی سوچا کہ ان کے نزدیک عالم اسلامی کے اتحاد کی نوعیت کیا تھی؟ بخدا! اس کی نوعیت بے امام نماز کی نہیں تھی او رنہ بےنماز امام کی تھی۔ ایک اسلامی برادر ملک نےکانفرنس کے دوران بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے پر میزبان ملک سے یہ گولی داغ کر اتحاد و اتفاق کی کوششوں کا ثبوت دیا کہک جناب اسی طرح کے کچھ اور حقائق بھی ہیں ، ادھر بھی نظر کرم ہو۔ کانفرنس سے واپسی پرگھر جاکر دو برادر ملکوں نے اپنی اپنی سرحدوں سے مہلک اسلحہ کی زبان میں باتیں کرکے کانفرنس کے اغراض و مقاصد کے سلسلے میں اپنے اخلاص کا ثبوت دیا۔ کانفرنس کی روئیداد کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ اس میں دفاعی، اقتصادی اور خارجہ اقتدار کے بارے میں باہمی تعاون کے کچھ ٹھوس فیصلے اور قرار دادیں سامنے نہیں آئیں ، جن کےبغیر کانفرنس کی افادی حیثیت کچھ زیادہ روشن نظر نہیں آتی۔ ٭٭٭