کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 30
مسلم برادر ملکوں کے دشمن ممالک سے احتراز کرنے کی ضرورت بھی کم محسوس کرتے ہیں ۔ یہ لوگ توپوں سے لڑ جاتے ہیں ، بموں سے دست وگریبان ہونے کو تیار رہے ہیں ، دشمن طاقتوں کے حضور سجدہ ریز ہوکر ذلت کی گھڑیاں بسر کرسکتے ہیں مگریہ بات ان کو گوارا نہیں ہے کہ اسلام کی راہ اختیار کرکے سرفراز ہوں ، ان کو خدا سے نفس، رسول سے طاغوت، اسلام سےبے دینی اور وحدت ملی سے اپنی اپنی نجی قسم کی سیادت زیادہ عزیز ہے۔ اس لیے یہ کانفرنسیں ابھی تک ملت کے روگوں کی دوا تلاش کرنے میں ناکام ہیں ۔
غورفرمائیے! یہ سربراہ اُٹھے ہیں کہ کس طرح عالم اسلامی کے اتحاد کی داغ بیل پڑے، لیکن ان مدعیوں کا حال یہ ہے کہ پاکستان میں تشریف لاکربقول وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرے۔ یعنی پاکستان سے وہ یہ کہناچاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کی وحدت کو ختم کرکے اس کو پارہ پارہ کرتے ہیں اور آپ اس پرانگوٹھا لگادیں ۔ .......غور کیجئے! جو لوگ ، برادر ملک کی ملکی وحدت اور عافیت کےٹکڑے کرنے کی سفارش کرسکتے ہیں وہ پورے عالم اسلام کے اتحاد کے لیےکہاں تک مفید خدمات انجام دے سکیں گے؟
کانفرنس میں طے ہوتا ہے کہ قضیہ فلسطین مل کر حل کریں گے لیکن اگلےدن آواز آتی ہے کہ انور سادات نے اسرائیل سے کہہ دیا ہے کہ وہ امن کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں
سربراہ کانفرنس عالم اسلامی کے اتحاد او رباہم مواسات کی حد تک کہاں تک مخلص اور مفید رہی۔ اس کا انداز اس سے فرماسکتے ہیں کہ:
انور سادات لاہور سے سیدھے دہلی پہنچے اور جاکر یہ بیان داغ دیاکہ بھارت کو اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیناچاہیے تھی۔
ملکی وحدت اور عافیت ہر ملک کابنیادی مسئلہ ہوتا ہے، جو لوگ اندرون ملک اُٹھ کر اس کو پارہ پارہ کرنے جرأت کریں ، چاہیے کہ ان کے خلاف سب صف آراء ہوں او ران کی حوصلہ شکنی کریں مگر ہوا یہ کہ جب شیخ مجیب الرحمٰن تشریف لائے تو سب سے زیادہ اس کو خوش آمدید کہا گیا۔ گویا کہ وہ اپنے ، اپنے عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ : اگر کوئی بد باطن اور قوم کا غدار شخص، دشمن اسلام طاقت سے سازباز کرکے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کردینے میں کامیاب ہوجائے تو اس کو ’’زندہ باد‘‘ کہنا چاہیے۔
جب لاہور میں کانفرنس ہورہی تھی انہی مبارک لمحات میں عالم اسلامی کے اتحاد کاڈھنڈورہ پیٹنے والے دہلی میں بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے تھے،او رجن کو پہنچنے میں دیر ہوگئی انہوں نے اگلے دن دہلی پہنچ کر سجدہ سہوا دا کیا۔ کم از کم گھڑی پل تو صبر کرتے، آخر اتنی جلدی کیا پڑی تھی۔ساری عمر پڑی تھی سر د مہری کی نمائش کا اہتمام ہزار بار کیا جاسکتا تھا۔ تازہ زخموں پر نمک پاشی کے لیے اتنی پھرتی اور چستی کا