کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 29
اسلام ہے محبوس مسلمان ہے آزاد
کا چلن عام ہوگیا ہے۔ہمارے نزدیک جب تک دونوں کی آزادی اور تحفظ کی کوئی سبیل نہیں نکالی جائے گی اس وقت تک خلافت کے لیے زمین ہموار نہیں ہوگی۔نظام خلافت کے احیاء کے بغیر عالم اسلام کے اتحاد کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ اس لیے ماضی قریب میں حضرت جمال الدین افغانی، رشید رضا (لبنان) ثروت بیگ (ترکی) سعید جوکرویناتو(انڈونیشیا) محمد عبدہ (مصر) علی برادران (ہند) مفتی مین الحسینی (فلسطین) اور علامہ اقبال (پاکستان) نے اس کے لیے خصوصی تحریک چلائی۔
ترکوں کی خلافت کا نظام جب درہم برہم ہوا تو ۹۲۶ء میں مکہ مکرمہ میں ایک عظیم ملی کانفرنس منعقد کی گئی، جس کی میزبانی کے فرائض شاہ عبدالعزیز ابن سعود نے انجام دیئے۔ او ریہی پر مؤتمر العالم الاسلامی تشکیل کی گئی او ریہ طے ہوا کہ پورے عالم اسلام میں اس قسم کی کانفرنسیں ہوتی رہیں ، چنانچہ ۱۹۳۱ء میں اس کا دوسرا اجلاس یروشلم میں بلایا گیا، متحدہ ہندوستان کے مسلم و فد کی قیادت علامہ اقبال نے کی، تیسرا اجلاس غالباً ۱۹۴۹ء میں کراچی میں ، چوتھا۱۹۵۱ء میں پھر کراچی میں ہوا، پانچواں ۱۹۶۲ء میں بغداد میں ، چھٹا ۱۹۶۴ء میں صومالیہ کے دارالحکومت میں ہوا، اب کے مسلم افریقہ کے نمائندہ نے بھی شرک کی۔
مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی (۲۱۔ اگست ۱۹۶۹ء)پر عالم اسلام کےاتحاد کے لیے پھر کوشش تیز تر کی گئی، جس کے نتیجہ میں ۲۲ ستمبر ۱۹۶۹ء کورباط میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ ۱۹۷۰ء میں وزراء خارجہ کی کانفرنس کراچی میں ہوئی، پھر ۱۹۷۲ء میں جدہ میں ، اس کے بعد ۱۹۷۳ء میں بن غازی (لیبیا) میں منعقد کی گئی اور حال میں اسلامی سربراہ کانفرنس ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء کو لاہور میں نہایت عظیم الشان تیاریوں سے ہوئی۔
اس ساری تفصیل کےپیش کرنے سے غرض یہ ہے کہ ان تمام مراحل میں کسی بھی مرحلہ اور موقعہ پر اسلامی نظام حکومت اور اسلامی اقدار حیات کے احیاء کے لیےمثبت پروگرام نہیں طےکیا گیا۔حالانکہ جو اکابر اس میں پیش پیش رہے تھے، وہ سرتا پا مسلم اور اسلام کے دلدادہ تھے اور یکطرفہ ٹریفک کے قائل نہ تھے، وہ مسلم او راسلام دونوں کی آزادی اور سرفرازی پر ایمان رکھتے تھے کیونکہ اس دوہرے رشتے کے بغیر وہ اتحاد شہود نہیں ہوسکتا جس کے خواب مدتوں سے دیکھے جارہے ہیں ۔
مختلف اوقات میں جن کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے ان کے پس پردہ جو محرکات کار فرما ہیں وہ صرف یہ ہیں کہ بڑی طاقتوں سے الگ الگ مار کھا کھا کر یہ لوگ تھک گئے ہیں ، اب ایک دوسرے کا سہارا لےکر ان سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں ۔اس لیے جن کو کسی سپر طاقت کا اعتماد حاصل ہے او ران کو کسی بیرونی جارحیت سے تحفظ میسر ہوگیا ہے وہ ان کانفرنسوں کے اغراض و مقاصد سے کچھ زیادہ دلچسپی کا اظہار بھی کررہے اور