کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 28
بن جائے گی،پھر وہ سرکشی، تشدد اور فساد فی الارض میں تبدیل ہوجائے گی، وہ ریشمی لباس، شراب اور بدکاری میں مبتلا ہوجائیں گے اور قدرتی طور پران کو ایسے مواقع بھی ملتے جائیں گے ، یہاں تک کہ وہ خدا سے جاملیں گے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد خلافت علی منہاج النبوۃ، خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم تک قائم رہی۔ پھر’’خیرالملوک‘‘ کا آغاز ہوا، جوچند ثانیہ سے زیادہ قائم نہ رہا۔ پھر بادشاہ آئے جو ملت اسلامیہ کا شیراز جمع اور متحد رکھنے میں بظاہر کامیاب رہے، چونکہ مسلمانوں میں ابھی حرارت موجود تھی، اس لیے ’’خلافت اسلامیہ‘‘ کے حاصل کرنے میں پھر ایکبار کامیاب ہوگئے مگر وہ ایک سال سے زیادہ محفوظ نہ رہ سکی، بعد میں ملوک کے بجائے شاہزادے اور راج دلارے براجمان ہوئے، مگر اندر ہی اندر فتنے پرورش پاتے رہے، ان میں صاحب تدبیر بھی تھے اور سیاسی طور پر نااہل بھی، کچھ نیک بھی تھے اور بعض بادہ نوش بھی۔ تاہم ملی وحدت کا ظاہری ڈھانچہ کافی عرصہ تک قائم رہا لیکن اندرونی طور پر اتنے کھوکھلے ہوچکے تھے کہ ان کو ختم کرنے کے لیے کسی زبردست مہم کی ضرورت نہیں پیش آتی تھی بلکہ جب کوئی چاہتا، بادشاہ کو پکڑتا اور پانی میں ڈبکیاں دے کر اسے جان سے مار ڈالتا۔ (معتزباللہ ۲۵۵ھ کا یہی حشر ہوا) معتصم باللہ کے آخری دور (۲۲۷ھ) تک کچھ بھرم رہا اس کے بعد طوائف الملوکی کا دور شرو ع ہوا، پہلے خود ماموں نے طاہریہ کے اقتدار کی داغ بیل ڈالی پھر صفاریہ نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی لیکن
چنداں اماں نہ داد کہ شب را سحر کند
ان سےسامانیوں نے ، پھر آل بویہ نے سراٹھایا، غزنویوں اور دیلمیوں کے ہاتھوں سامانیوں کابسترہ گول ہوا، سلجوقی اٹھے تو انہوں نے دیلمیوں کو چلتا کیا، ان میں خوارزم شاہی ابھرے، خوارزم شاہیوں اور بغدادی خلافت کے مابین رسہ کشی ہوئی تو دونوں نے تاتاریوں کی مدد سے اپنے آپ کو تباہ کیا۔
الغرض خلافت کےنااہل والیوں نے خلافت چھوڑ کر پوری ملت اسلامیہ کو پارہ پارہ کرکے یہاں تک محدود ٹکڑیوں میں اس کوبانٹ دیا کہ اب آپ کے عالم اسلام میں وہ بھی مملکتیں ہیں جن کا کل رقبہ ۲۳۱ مربع میل اور آبادی ایک لاکھ ۲۰ ہزار ہے۔
اس ساری شکست و ریخت کے بنیادی اسباب دو تھے۔مسلمانوں میں اسلامی فکر و عمل کا انحطاط اور وطن و نسل کی بنیاد پر حصول آزادی کی یلغار، جب کوئی ’’اسلامی رشتے‘‘ کے تحفظ کے لیے مخلص نہیں رہتا تو پھر لوگوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ کسی غیر کی قیادت کاطوق اپنے گلے میں ڈالیں ۔چنانچہ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ جو اپنی علاقائی آزادی کے نام پر اُٹھ کھڑا ہوتا تو اس کو کنٹرول کرنے کے بجائے الٹا اس کو کود مسلمانوں میں حواری بھی مل جاتے۔ او ربالآخر اپنے بھائیوں کی یہ حوصلہ افزائی رنگ لائی اور رنگ لاتی جائے گی۔اب سارا زور مسلمانوں کی آزادی پر صر ف ہورہا ہے، باقی رہا اسلام؟ سو وہ بقول اقبال۔