کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 27
مولانا عزیز زبیدی ، واربرٹن اسلامی سربراہ کانفرنس محرکات اور تخلیقات لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس سے پہلے اور بعد اس کانفرنس سے لمبی چوڑی توقعات اور جائزے و تبصرے رسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔ اتنی کثیر تعداد میں مسلمان ملکوں کے سربراہوں یانمائندہ وفود کے اسلام کے نام پر ایک جگہ جمع ہونے کو بڑی اہمیت دی گئی اور مختلف شخصیتوں ، اداروں یا جماعتوں کی طرف سے زیر بحث مسائل کے لیے تجاویز اور مشورے بھی پیش کیے گئے۔ رجائیت پسند حضرات نے اس کانفرنس کو عظیم مقاصد کے حصول کا پیش خیمہ قرار دیا لیکن دوسری طرف اس موقع پربنگلہ دیش کے بطور ’’حقیقت‘‘ تسلیم اور بعض سربراہوں کے ذاتی طرز عمل نے ان حضرات کو خاصا مایوس کیا جو پہلے ہی سے ایسے خطرات کو سامنے رکھتے تھے یا اس کانفرنس سے فوری یا بڑی بڑی امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے۔ خصوصاً ان اندیشوں کے حقیقت بننے سے یہ ’’عظیم مسلم اجتماع‘‘ ان کے لیے ایک گھٹن اور بوجھ بن گیا۔ ذیل کی سطور میں مقالہ نگار کے پیش نظر ’’اسلامی چوٹی کانفرنس‘‘ کا یہی دوسرا پہلو ہے۔ ..... (ادارہ) نظام خلاف کا تصور مسلمانوں کو متحد رکھنے کے لیےاکیسر سے بڑھ کر ہے، کیونکہ ’’خلافت اسلامیہ‘‘ کے تصور سے معاً وحدت ملی کا تصور بھی لازماً آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گو برائے نام سہی تاہم جب تک ٹوٹا پھوٹا اور ڈھیلا ڈھالا نظام خلافت قائم رہا، ملت اسلامیہ بھی متحد اور مجتمع رہی، جب یہ بھی نہ رہا تو بادشاہتوں کی وہ ریل پیل ہوئی کہ رہے نام اللہ کا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت حال سے پہلے ہی امت مسلمہ کو آگاہ کردیاتھا۔ ان ھذا الامريدا ورحمة و نبوة ثم يكون رحمة و خلافة ثم كائن ملكاعضوصا ثم كائن عتوا و جبرية وفسادا في الارض يستبحلون الحرير والفروج والخمور و يرزقون علي ذلك وينصرون حتي يلاقوا اللّٰه (البدایہ والنہایۃ،ج۸ص۲۰) اس امر (حکومت) کی ابتداء رحمت اور نبوت سے ہوئی پھروہ رحمت اور خلافت ہوگئی، اس کے بعد جبری شاہی