کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 26
کے ہمراہ جانے کے تاکیدی حکم کو ٹھکرا دیا گیا اور ان تمام سرتابیوں سےبڑھ کر وہ سرتابی تھی جو تحریر وصیت کے سلسلے میں ظاہر ہوئی۔ (ایضاچ ص۵)
...... عمر نہ صرف بیت المال سے روزینہ لیتے تھے بلکہ بوقت ضرورت مسلمانوں کو جمع کرکے ’’مانگ‘‘ بھی لیتے تھے۔ (ایضاً ص۱۶)
اس ضمن میں ایک صحابی کا واقعہ ملحوظ رہے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے توریت پڑھنا شروع کی......اور آپ نے فرمایاکہ خدا کی قسم اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو تم مجھے چھوڑ کر یہودی بن جاتے (معارف اسلام ص۵۸۔نومبر دسمبر ۱۹۶۲ء علی و فاطمہ نمبر)
حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ
جونہی ابوسفیان کے نعرے بلند ہوئے اس کی بیوی ہندہ بن عتبہ کھڑی ہوگئی وہ خوب بنی ٹھنی تھی۔ (علی و فاطمہ نمبر، نومبر دسمبر ۱۹۶۵ء)
توہین نبی
اگر یہ سوال ہو کہ اگرکوئی زمانے کا نیک ہو،پارسا ہو، زاہد ہو، متقی ہو، غوث و قطب ہو صحابی ہو حتیٰ کہ اگر ’’نبی‘‘ ہی سامنے ہو تو کیا پھر امام حسین علیہ السلام کو ان میں سے کسی ایک کی بیعت کرلینی چاہیے اس کے لیے امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ (علی و فاطمہ نمبر ماہ ستمبر۱۹۷۱ء)
اہل حدیثوں کاذکر
سہارا ان(وہابیوں )کو نجد کے عبدالوہاب کی تحریک وہابیت ہی کا رہا..... صحیح بخاری میں روایت موجو دہے کہ :
’’....... صحابہ نے پھر کہا یارسول اللہ نجد میں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری یا تیسری مرتبہ فرمایا :وہاں (یعنی)نجد میں زلزلے اور فتنے ہیں وہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا‘‘ (معارف اسلام ص۱۱، جون ۱۹۷۳ء)
اخیری حوالہ بالکل تازہ اور اسی شمارہ کا ہے جس میں ہمارے محترم فاضل غیاث الدین صاحب نے ’’صلح جوئی اور نزاکت وقت‘‘ کا درس دیا ہے۔ الغرض طرار اور نباشوں کا یہ وہ سنگدل ٹولہ ہے، جس نے ’’شیعہ مسلک‘‘ مفید خدمت انجام نہیں دی او راسلاف صحابہ کے مدفن اکھیڑ کر ان کے پاک کفن پھاڑے اور ان کےجسد اطہر کی بے حرمتی میں بڑی شقاوت کا ثبوت دیا۔یقین کیجئے ہم نے یہ اقتباس سرسری طور پرنقل کیے ہیں ۔ انہوں نے نام نہاد معارف اسلام میں اہل سنت، عظیم صحابہ اور امامان امت کے خلاف جو سوقیانہ زبان، عامیانہ گلفشانیاں کی ہیں ، وہ ان سے کہیں زیادہ دل خراش اور شرمناک ہیں جو اوپر درج کی گئی ہیں لیکن بایں ہمہ ناصح بنتے ہیں کہ وقت کی نزاکت کا احساس کیا جائے حالانکہ ان اشتعال انگیزیوں کے باوجود ہم فضا کو مکدر کرنے کے خلاف ہیں ، بلکہ ہم اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ اس سے ان دوستوں نے دین و دنیا اور آخرت سیاہ کی ہے او راس قدر سیاہ کہ خود سیاہ ہالہ میں محصور رہتے ہیں او راس آیت کے مصداق، خود ہی اپنے درپے آزار رہتے ہیں ۔ ﴿يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَاأُولِي الْأَبْصَارِ ﴾ (الحشرع۱)