کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 25
منبر کے نیچے انس بن مالک رضی اللہ عنہ او ربراء بن عازب رضی اللہ عنہ اور جریر بن عبداللہ بیٹھے تھے۔ جناب امیر علیہ السلام نے مکرر یہی فرمایا۔ لیکن ان میں سے کسی نے کچھ نہ کہا۔جناب علی علیہ السلام نے فرمایا: الہٰی ! جس شخص نے اس شہادت کو چھپایا ہے باوجودیکہ وہ اس کو جانتا ہے ، اس شخص کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک اس کے لیے کوئی نشانی نہ مقرر کردے کہ وہ اس سے دنیامیں پہچانا جائے،عمر بن سعد کا کہنا ہے کہ انس مبرص (برص کی بیماری میں مبتلا) ہوئے اور براء اندھے ہوگئے اور جریر ’’بکواس‘‘ کرتے کرتے واپس آئے۔الخ (معارف اسلام علی و فاطمہ نمبر ص۴۲ جمادی الثانی و رجب ۱۳۸۶ھ مطابق اکتوبر و نومبر۱۹۶۶ء)
غور فرمائیے ! کس قدر شریفانہ زبان اور کس قدر صلح جو یانہ انداز ہے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کے اظہار خیال کا کیا انداز ہے۔ذیل کی سطور ملاحظہ فرمائیں ۔جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ’’اُمت‘‘ نے اہل بیت رسول سے کشمکش شروع کردی اور اس سے انحراف کرنے کو اپنی حیات کا مقصد بنا لیا.... اس ظلم کی آل رسول میں سے پہلی شہیدہ ظلم جناب فاطمۃ الزہرا علیہ السلام ہیں کہ .... جس نے اس کو رنجیدہ کیا اس نے مجھے رنجیدہ کیا.... پس اولاد فاطمہ طاہرہ سےروگردانی او ران کے طریقے سے علیحدگی اختیار کرنے سے کیا ’’نجات‘‘ ممکن ہوسکتی ہے؟)(معارف اسلام علی و فاطمہ نمبر ، نومبر و دسمبر۱۹۶۴ء)
ناقہ رموز مملکت کی ہلاکت آفرینی نے جب باغ فدک کو منہ مارا اور وہ نہ صرف اس کے منہ کا لقمہ بنا بلکہ جگالی کا سامان بنا تو .... (ایضاً)
رسول حق منزلیں طے کرتے رہے، غار میں پہنچے وہاں اپنے یار کو ’’لا‘‘ کہنا پڑا (یعنی لا تحزن ان اللّٰه معنا) ليكن خانہ نبوت میں کسی کو بھی ’’لا‘‘ کہنے کی ضرورت نہ پڑی‘‘ (ایضاً)
انتہا ہے کہ سیدہ عالم کے گھر پرلکڑیاں جمع کردی گئیں او رآگ لگائی جانے لگی۔ (معارف علی و فاطمہ، اکتوبر نومبر۱۹۶۶ء)
سقیفہ بن ساعدہ کے واقعات کی بنا پر دنیانے آل محمد سےرخ پھیر لیا جس کے نتیجہ میں بعد ازاں نامعلوم برسر اقتدار آگئے۔ (معارف اسلام، ص۲۶ شہیدنینوا نمبر ۱۳۸۷ھ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاذکر خیر یوں فرمایا:
امیرالمؤمنین کا ارشاد کہ ’’میں نے کبھی پیغمبر کے احکام سے سرتابی نہیں کی‘‘ یہ ان لوگوں پر طنز ہے کہ جو پیغمبر کے احکام کو رد کرنے میں بیباک تھے اور انہیں ٹوکنے کی جسارت کر گزرتے تھے۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب پیغمبر کفار قریش سے صلح پرآمادہ ہوگئے تو صحابہ میں سے ایک صاحب اتنے بُرا فروختہ ہوئے کہ وہ پیغمبر کی رسالت میں شک کرنے لگے.... اس امر کا پتہ دیتا ہے کہ مخاطب (یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ) شک کی منزل سے آگے نکل چکا تھا..... اسی طرح جیش اسامہ