کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 24
۱۔ اسلام کے فلسفہ حیات کو سمجھ نہ سکے۔ ۲۔ لالچ اور اغراض ابھی دلوں میں موجود تھے۔ ۳۔ دوراندیشی او رجنگی تدبیر کا فقدان تھا۔ ۴۔ نظم و ضبط کی اہمیت سے واقف نہ تھے۔ ۵۔مرکزیت او رمرکز سے رابطہ کے سنہری اصولوں سے ناواقف تھے ۶۔اطاعت رسول کے صحیح مفہوم سے آشنا نہ تھے۔ ۷۔ (ان میں ) وسعت نظر پیدا نہ ہوئی تھی۔ ۸۔ ذہانت و فطانت، جرأت و تہور او راجتماعی بقاء کے اصولوں سے بہرور نہ ہوئے تھے۔ (معارف اسلام، ص۴۸، جنوری ۱۹۶۶ء) خالد بن ولید کے حملہ کے وقت فرار ہونے والے تن آسان اگر ذرہ ہمت سےکام لیتے تو .....(ایضاً ص۴۹) انصار مہاجرین ’’مہاجرین میں اکثریت‘‘ مصلحت پسند طبقہ کی تھی۔ انصار نے جہاں ’’غیر مخلص عناصر‘‘ کی اکثریت پیش کی۔ (ایضاً ص۵۳) ہمیں اُحد کی جنگ میں ایک تیسرے طبقے کا سراغ بھی ملتا ہے یہ ’’غیر مخلصین‘‘ کا گروہ تھا مگر اپنی فطری بزدلی کی بنا پر وہ کھل کر سامنے نہ آسکتے تھے۔ یہ طبقہ نظری، فکری او رسیاسی طو رپربلوغت کو قطعاً نہ پہنچا تھا۔ ان کے اسلام کاباعث محض بھیڑ چال اور مبہم خیالات تھے اور اگر خدانخواستہ پیغمبر مارے جاتے تو یہی لوگ جن کی اکثریت تھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاتے او رمخالفین سےمل کر اسلام کے باقیات و آثار کو ختم کردیتے۔ منطقی طور پر اس طبقے کی اکثریت انصار میں ہونی چاہیے تھی اور تھی۔ (ایضاً ص۵۲) اُحد میں شریک صحابہ کی تعداد تقریباً۶۵۰ تھی جن میں خلفائے راشدین ، دوسرے عظیم مہاجرین اور انصار شریک تھے یہ خراج عقیدات ان کو پیش کیا جارہا تھا۔ غور فرمائیے ۔نزاکت حالات کاکس قد راچھوتا احساس کیاجارہا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ، براء رضی اللہ عنہ اور جریر رضی اللہ عنہ حضرت انس خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت براء بن عازب انصاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی جنگ جمل، صفین او رنہروان میں حضرت علی کے ساتھ اور سپاہی اور حضرت جریر بن عبداللہ بحلی مشہور صحابی ہیں ۔ ان کےمتعلق ’’معارف اسلام‘‘ رقم طراز ہے۔ ’’عمر بن سعد ناقل ہے کہ جناب علی علیہ السلام نے منبر پر چڑھ کر لوگوں کو قسم دی کہ جس شخص نے غدیر خم کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےمن کنت مولاہ والی حدیث کو سنا ہے وہ کھڑے ہوکر بیان کرے، پس لوگوں نے گواہی ادا کی۔