کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 21
پڑھ کر خود ہی اندازہ فرما لیں کہ ہم نے کیاعرض کیا ہے اور جناب غیاث الدین صاحب کدھر کو او رکس انداز میں اٹھ دوڑے ہیں ۔لیکن اس خیال سے کہ راقم الحروف کی خاموشی کو غلط معنی پہنائے جائیں گے، مکرر عرض کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے، لیکن اس کے باوجود قارئین سے پھر بھی یہی درخواست کریں گے کہ دونوں نگارشات کو سامنے رکھ کر وہ دونوں کو تولنے کی زحمت ضرور اٹھائیں ۔
فاضل تبصرہ نگار نے کسی دائرہ میں رہ کر بات نہیں کی، بلکہ یوں چلے ہیں جیسے صحرا میں باؤگولہ یا ایک بھٹکا ہوا راہی۔ اس لیے بات کو سمیٹنے میں بڑی دقت ہوتی ہے۔ دراصل یہ ’’بات بے ڈھنگی‘‘ بھی ان کی ’’غیر واضح ذہنیت‘‘ کی غماز ہے، انہیں خود ہی معلوم نہیں کہ ان کے بنیادی اور اصولی مسائل کیا ہے اور جس مضمون کا وہ تعاقب فرما رہے ہیں وہ کن پہلوؤں پر توجہ دینے کے متقاضی ہےبہرحال ہم کوشش کریں گےکہ ان کو معروف دائروں میں رکھ کر بات کی جائے تاکہ اخذ نتائج میں آسانی رہے۔
معارف اسلام شیعہ دوستوں کی ’’اصول کافی‘‘ ہے اور باقی اہل سنت والجماعت کے لیے بہت بڑا ناصح ، لیکن ’’تقیہ‘‘ جیسےبزدلانہ آڑ کے باوجود صحابہ کے سلسلہ میں وہ بغض و عناد کے جو جذبات رکھتا ہے وہ بہرحال بے قابو ہوجاتے ہیں ۔ وما تخفی صدودھم اکبر
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
معزز معاصر ’’معارف اسلام‘‘ کے فاضل مدیراپنے مخصوص لہجہ اور زبان میں شکایت فرماتے ہیں کہ ہم نے وقت کی نزاکت کا احساس نہیں کیا اور تفرقہ ڈالنے والی باتیں لکھ کر فضا کو مکدر کرنے کا ارتکاب کیا ہے۔ (ملخصا معارف اسلام جون ۱۹۷۳ء، ص۱۰۔۱۱)
ہم خود اس امر کو بُرا جانتے ہیں کہ تفرقہ ڈالنے والی باتین کی جاویں ۔لیکن کیا کیا گیا جائےاگر کوئی صاحب چپ ہی نہ رہنے دیں ۔’’حضرت ناصح اور واعظ‘‘ کی صلح جوئی کے جو نمونے ان کی تقریبات میں سامنے آتے رہے ہیں وہ تو محتاج بیان نہیں ہیں ، ابھی ’’حالیہ محرم‘‘ (۱۳۹۴ھ) میں رنگ برنگے جوجو غبارے چھوڑے جارہے ہیں ، وہ بھی ابھی تازہ ہیں ، ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں ، عیاں راچہ بیان؟ سردست ہم ان دوستوں کی ان چیرہ دستیوں اور حوصلہ شکن تلمیحات کے کچھ نمونے آپ کے سامنے رکھتے ہیں جو ماہنامہ ’’معارف اسلام‘‘ میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں وہ بھی ’’مشتے نمونہ از خردارے‘‘ کے طور پر، خاص طور پر ان نفوس قدسیہ کےبارے میں ، جوشمع رسالت کے پروانے او رپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک صحابہ تھے۔ آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ ہندو، سکھ، یہودی، عیسائی، بلکہ منکرین خدا بھی اپنے ’’رہنماں کے ان یاروں ‘‘ کا احترام ہی کرتے ہیں جو ان کے ’’یار غار‘‘ کہلائے۔مگر شیعہ دوست ہیں جن کو جتنی بُرائیاں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’یاروں ‘‘ میں نظر آتی ہیں ، دوسروں میں نہیں ۔