کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 19
۶۔ ہمارا جو علی ہے وہ سزاوار خلافت ہے مگر اپنی باری پر جو قدرتی ترتیب رکھتی ہے۔ ۷۔حضرت علی سیاسی سے زیادہ علمی شخصیت تھے۔ ۸۔ اب اگر شیعوں کی بات مان بھی لی جائے تو کیاخلاف عمل چوتھی جگہ سے سرک کرکے پہلی جگہ پر فٹ ہوکر وہ خلیفہ بلا فصل ہوجائیں گے؟ حالانکہ نہیں ۔ پھر خواہ مخواہ امت کاوقت کیوں ضائع کررہے ہو وغیرہ۔ مگر معاصر محترم کے دونوں شماروں کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجئے ادھر ادھر کی ہانکی ہیں ، کیا موضوع کی طرف بھی توجہ مبذول فرمائی ہے؟ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی معارف اسلام معارف اسلام (شمارہ جون،جولائی ۱۹۷۳ء) شیعوں کا ماہنامہ ہے، عرصہ سے جاری ہے۔ اس کی ثقاہت کا پایہ کتنا ہے؟ اسے اُٹھا کر خود ہی دیکھ لیجئے۔اس کے جذبات، باتیں ، افکار، اسلوب خطاب اور علمی ثقاہت، غرض جو شے بھی دیکھیں گے، بس سبحان اللہ پڑھیں گے۔ جیسے ماتم کررہے ہوں یا بال نوچنے کوپڑتے ہوں ۔ اگر طبیعت حاضر ہوئی توپھر یوں جیسے کوئی اپنی لے میں گنگنا رہا ہو۔ بہرحال علم اور سنجیدگی کی تلاش وہاں بالکل بےفائدہ ہے۔ یہ طنز نہیں بلکہ کچھ کام کے آدمیوں کے ضیاع کا رونا ہے۔ان للہ۔ دوستوں سے ایک گلہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں دو فرقے ایسے ہیں جن سے گفتگو اور تبادلہ خیال کرکےکچھ لطف نہیں آتا۔ ایک شیعہ دوسرے دوست بریلوی کرمفرما۔ ان سےکلام کرنےکے لیے ضروری ہے کہ انسان ! (الف) پہلے سر اور ڈاڑھی کےبال منڈوائے، بعد میں (ب) پگڑی اتار کر اسے گھر رکھ دے (ج) ورنہ پگڑی نہیں ہے یا سر اور ڈاڑھی کے بال اس اعتبارسے شیعہ دوستوں کا ہم احترام کرتے ہیں کہ یہ یزید کے دشمن ہیں مگر یہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے کہ علمی محاسبہ اورمذہبی مناقشہ کے دوران، زبان یزید کی استعمال کرتے ہیں یا جیسے کسی بالشویک کی دانتری اور قلم یوں چلاتے ہیں جیسےابن زیاد اور حجاج بن یوسف کی تلوار۔ یہی حال بریلوی کرمفرماؤں کا ہے کہ اس عظیم ہستی اور رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے عاشق بنتے ہیں جنہوں نے گالیاں کھاکر دعائیں دیں ۔ لیکن یہ ’’عشاق کرام‘‘ بات ہی گالیوں سے شروع کرتے ہیں ۔