کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 18
کہیں نہیں گیا۔ یس یوں سمجھئے کہ محترم مدیر جناب غیاث الدین صاحب نے حقیقت حال کے چھپانے کی جو کوشش کی ہے بقول شیعہ اکابر کے یہ چال کامیاب نہ سہی، ثواب تو انہوں نے کما ہی لیا۔
علی و فاطمہ نمبر ۱۹۶۳ء تھا:
ان دنوں میں معارف اسلام کے دوسرے شماروں کے علاوہ ہمارے سامنے زیادہ تر ’’علی و فاطمہ نمبر‘‘ ماہ نومبر و دسمبر ۱۹۶۳ء کا مشترکہ شمارہ بھی تھا، کہیں اس کا ماحصل پیش کیا تھا کہیں اس کی عبارت کے بعینہ اقتباسات درج کیے تھے۔ سہو و نسیان ممکن ہے لیکن یقین کیجئے ہم نے ’’تقیہ‘‘ سے کام نہیں لیا تھا کیونکہ ہمارے دین میں ’’جعلسازی‘‘ حرام ہے، کارثواب نہیں ہے۔
اب فاضل مدیر محترم غیاث الدین صاحب نےمعارف کے دو شماروں (جون ، جولائی ۱۹۷۳ء) میں ہماری گذارشات پرنقد و تبصرہ کیا ہے او راپنے روایاتی ’’تبرا بازی‘‘ سےنوازا ہے۔ لیکن اصولی طور پر جو باتیں عرض کی گئی تھیں ، ان کی طرف میرے بھائی نے توجہ مبذول نہیں کی۔ باقی رہا یہ کہ کیوں ؟ تو یہ آپ ان سے پوچھئے! ہمارے لیےتو ان سے دریافت کرنا اس لیےبھی مشکل ہے کہ تبرا تول کے اور تقیہ کرکے وہ تو ثواب لوٹیں گے او رہم ناحق بدمزہ ہوں گے۔آخر کوئی اس جماعت پرکیسے اعتماد کرے جس کا یہ نظریہ ہو:
ان تسعة اعشار الدين في التقية ولا دين لمن لا تقية له (اصول كافي مطبوعہ لكھنؤ،ص۴۸۱)
’’دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ میں ہیں جو تقیہ نہیں کرتا وہ دیندارنہیں ۔‘‘
(بروایت اصول کافی) امام باقر فرماتے ہیں ، تقیہ میرا اور میرے باپ دادے کا دین ہے۔
ہماری گذارشات:
ہم نے اپنے مضمون (محدث ماہ محرم ۱۳۹۳ھ) میں یہ کہا تھا کہ:
۱۔ شیعہ حضرات حضرت علی رضی اللہ عنہ و آل علی کے سواء باقی ساری دنیا کو تقیہ سے بہلاتے ہیں ۔
۲۔ ان کی تمام تر توجہات کا مرکز کتاب و سنت سے زیادہ علی اور آل علی ہے۔
۳۔ شخصیت پرستی کا روگ ان کو لگ گیا ہے۔
۴۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کےلیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کا نعرہ ایک تہمت ہے۔
۵۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیعوں کے جونظریات ہیں انکی رو سے ان کے لیے خلافت اسلامیہ کے بجائے مقام عرش پر نیابت خدا چاہیے تھی۔