کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 16
وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ۹؎() __________________________ خالی نہیں ہے۔مگر افسوس! جس استہزاء کا انجام اس قدر سنگین ہے، دنیا میں اس کا چلن اتنا ہی عام ہے، کبھی شیخ کی پگڑی کا مذاق اڑایا جاتاہے تو کبھی اس کی ڈاڑھی کا، کبھی اس کے سجدوں کی ہنسی اڑائی جاتی ہے اور کبھی اس کی تسبیح کی، کبھی اس کی کسی نیکی پر مخول کیا جاتا ہے او رکبھی اس کی چال ڈھال پر ۔ بہرحال جو لوگ اس راہ پر دوڑ رہے ہیں ، انہیں اس کا انجام یاد کرلینا چاہیے۔ ۹؎ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (نہ وہ سیدھی راہ پر قائم رہے) یعنی ان منافقوں نےدنیا کی عارضی منفعت، وقتی آسودگی اور گھڑی پل کے مزوں پر ایمان سعادت اور ابدی اخروی فوز وفلاح کو قربان کر ڈالا۔ اب بھی جو شخص انہی راہوں پرچلے گا اس کا بھی انجام اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ یہ سنت اللہ ہے۔ قوم ثمود کے ذکر میں فرمایا: ﴿ وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْهُدَى فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ (پ ۲۴، حم السجده: ع۲) باقی رہے ثمود؟ تو ہم نے ان کو رستہ دکھا دیا تھا مگر انہوں نے سیدھا رستہ چھوڑ کر گمراہی اختیار کی ، انجام یہ ہوا کہ ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے ان کو ذلت کے عذاب کی کڑک نے آلیا۔ غرض یہ ہے کہ : نفس و طاغوت کے پیچھے لگ کر جو لوگ حق کی راہ چھوڑ دیتے ہیں ، ان کا انجام عموماً بڑا حوصلہ شکن ہوتا ہے۔ ایک تو ان کو یہ سودا بہت مہنگا پڑتا ہے، دوسرا یہ کہ راہ راست کھو دیتے ہیں ، اس لیے پھر ٹامک ٹوئیوں میں سرمارتے مارتے ہلاکت خیز گڑھوں میں گر کر ہمیشہ کے لیے برباد ہوجاتے ہیں۔ اعاذنا اللّٰه واياكم منھا۔ ٭٭٭