کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 15
أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی سو نہ تو ان کی تجارت سود مند ہوئی۔ _________________________________________ اور جو لوگ انکاری ہیں اس خیال میں نہ رہیں کہ ہم ان کو جوڈھیل دےر ہے ہیں کچھ ان کے حق میں بہتر ہے ہم تو ان کو صرف اس لیےڈھیل دے رہے ہیں تاکہ اور گناہ سمیٹ لیں او ر(آخرکار) ان کو ذلت کی مار ہے۔ قرآن حکیم کےمطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جزا میں مثاکلہ بھی ہوسکتا ہے، اس لیے قیامت میں ان مستہزئین کو جو سزا دی جائے گی اس میں بھی یہی قدرتی رنگ ابھر آئے گا۔ ﴿ يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ (13) يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُنْ مَعَكُمْ قَالُوا بَلَى وَلَكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّى جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ (14) فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَةٌ وَلَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مَأْوَاكُمُ النَّارُ هِيَ مَوْلَاكُمْ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾ ۔ (پ ۲۷،الحديد:ع۲) ’’اس دن منافق مرد اور منافق عورتوں مسلمانوں سےکہیں گے کہ (ذرا تو) ہماراانتظار کرو کہ تمہارے (اس ) نور (روشنی) سے ہم بھی(فائدہ) اٹھا لیں (تو ان سے) کہا جائے گاکہ (انہیں ) اپنے پیچھے کی طرف لوٹ جاؤ اور (کوئی اور) روشنی تلاش کرلو، اس کے بعد ان (دونوں فریقوں ) کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی (اور) اس میں ایک دروازہ ہوگا (پھر جو)دروازے کی اندرونی طرف (ہے جدھر مسلمان ہیں ) اس میں (تو خدا کی) رحمت ہوگی اور اس کی (جو)بیرونی طرف (ہے جدھر منافق ہیں )ادھر عذاب (الہٰی) ہوگا (یہ منافق)مسلمانوں سے پکار پکار کر کہیں گے کہ کیا (دنیامیں ) ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ وہ کہیں گے، تھے تو سہی مگر تم نے آپ اپنے تئیں بلا میں ڈالا اور (اسی بات کے) منتظر رہے (کہ مسلمانوں پر کوئی آفت آنازل ہو) اور شک میں (پڑے) رہے اور (انہی محال) آرزؤوں نے تم کو دھوکے میں رکھا یہاں تک کہ حکم خدا آپہنچا (یعنی موت) اور دغا باز (شیطان) اللہ کے بارے میں تم کو دھوکے دیتا رہا۔ تو آج نہ تو تم (ہی) سے کچھ معاوضہ قبول کیا جائے اور نہ ان لوگوں سے جو (صریح) انکار کرتے رہے، تم سب کاٹھکانہ ہی دوزخ ہے او روہی تمہاری رفیق ہے اور (وہ کیا ہی) بُرا ٹھکانا ہے۔‘‘ گویا کہ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ کی یہ بھی ایک شکل ہےکہ قیامت میں ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو دنیا میں وہ مسلمانوں کے ساتھ کیاکرتے تھے۔بہرحال منافقوں نے دنیا میں بھی استہزاء کا مزہ چکھا اور آخرت میں بھی چکھیں گے ۔ اگر کسی کو کسی بات سے اتفاق نہیں ہے تو نہ سہی لیکن اس کا مذاق اڑانا کسی طرح بھی اندیشہ سے