کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 14
مُسْتَهْزِئُونَ۷؎ () اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ ۸؎بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ()
بناتے ہیں (حقیقت میں) اللہ ان کو بناتا ہے او ران کو ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں پڑے ٹامک ٹوئیاں مارا کریں۔
______________________________________
اس لیےمنافق ان کو دیوانہ اور العیاذ باللّٰہ احمق کہتے تھے کہ ان لوگوں نے ’’دین ضیاع‘‘ قبول کیا ہے۔ لیکن خدا فرماتا ہے کہ دراصل یہ خود احمق ہیں ، صحابہ کا دین ،’’دین ضیاع‘‘ نہیں ، ’’دین وفا‘‘ ہے۔ ان اللّٰه اشتري من المؤمنين انفسھم و اموالھم بان لھم الجنة کے مقام کے یہ اہل رسوخ لوگ ہیں جن کو سمجھنا اہل نفاس جیسے بد ذوق او رکاروباری سوداگروں کے لیے مشکل ہے۔
۷؎ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ ( ہم تو ان کو بناتےہیں )اہل نفاق کی یہ ایک اور علامت بتائی گئی ہے کہ فریقین کےساتھ یہ بزدل کس طرح پیش آتے ہیں ؟ یعنی مسلمانوں سےملے تو کہا ہم تمہارے ساتھ ہیں اور جب اپنے ہم پیالہ و ہم نوالہ لوگوں سے ملتے تو کہتے یار! دل بُرا نہ کرنا، ہم تو مسلمانوں کو اُلو بناتے ہیں ، ورنہ ہمیں ان سے کیا سروکار؟ یہ بالکل ویسی بات ہے ، جیسی کچھ آج کل سیاست باز حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔بہرحال یہ ان لوگوں کے گھٹیا کردار کے نمونے ہیں جن کے سامنے کوئی روحانی، اخلاقی اور عقلی اقدار اور اصول نہیں ہوتے، بلکہ ان کے سامنے کچھ ’’سفلی مقاصد‘‘ ہوتے ہیں ، جن کے حصول کے لیے ذلیل سے ذلیل تر راہ اختیار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
۸؎ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ (الله ان كو بناتا ہے) دوسروں کا تماشا کرنےوالےکبھی خود بھی تماشا بن جاتے ہیں او ریہ عموماً ہوتا ہی رہتا ہے۔اسی کو ’’ان کو بنانا‘‘ کہا گیا ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مذاق او رمخول کرکے وہ خوش تھے کہ ایک دن یہ بھولے بھالے لوگ مات کھاجائیں گے۔بس یہ سوچ کر پھر وہ انہیں ذلیل راہوں پر مطمئن ہوکر پڑ جاتے تھے جو اپنے ذلیل مقصد کے لیے انہوں نے اختیار کرلی تھیں ۔ پروگرام گھٹیا او رطریق کار نامعقول، اس پر خوش فہمی ابلہانہ کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں ، اس کے کیا کہنے! ظاہر ہے کہ اب ایسے آج نہیں تو کل بالآخر تماشا ہی بنیں گے۔ رسوا ہوں گے۔ ذلیل ہوں گے اور اپنے انجام کو پہنچ کر دنیا کے لیے درس عبرت بنیں گے۔ الله يستھزي بھم ويمدھم سےیہی مراد ہے۔ دوسرے مقام پر اسے یوں بیا ن کیاگیا ہے۔
﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ﴾ (آل عمران:۱۸)