کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 12
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا۵؎ فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ () أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ ()
او رجب ان سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد نہ پھیلاؤ (تو) کہتے ہیں کہ ہم تو (لوگوں میں) میل جول کرنے والے ہیں اوربس سنو جی یہی لوگ فسادی ہیں لیکن نہیں سمجھتے
___________________________________________
کرنے میں اور زیادہ تیز ہوجائے تو خدا اتنی ہی نسبت سے، کڑھنا،حسرت و نامرادی کی آگ میں جلنا اس کا مقدر بنا دیتا ہے۔ جیتا ہے او رکڑھتا ہے، جتنا سلجھاتا ہے اس سے کہیں زیادہ الجھتا ہے۔ بس اسی حسرت و یاس میں عمر تمام ہوجاتی ہے۔بہرحال اہل نفاق کی یہ دوسری بدنصیبی کا ذکر کیاگیا ہے۔
۵؎ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا: (فساد نہ کرو) جو لوگ اپنی نادانیوں کو اپنے وقار کا مسئلہ بنا لیتے ہیں ان کو اپنی ایک غلطی کو ہضم کرنے کیلئے سینکڑوں غلطیوں کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے۔اس لیے ان کی تخرینی سرگرمیاں بھی بڑھ جایا کرتی ہیں ۔مثلاً ریاست کے حصول کے لیے ایمان کوٹھہرایا، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی نادانی نہیں ہوسکتی مگر اپنے دل کو فریب دین کے لیے انہوں نے دھونس دھاندلی، مکروفریب او ر ریشہ دوانیوں کے سینکڑوں چکر چلا ڈالے تاکہ ننگوں کی ایک جمعیت بن جائے، اور وہ اس حمام خانے میں تنہا ننگے نہ رہیں ۔
اسی طرح ایمان کا یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ عدل و انصاف او رمروت ملحوظ رکھنے کے باوجود ان میں جذب ہونے یا ان کی دوستی کا دم بھرنے سے پرہیز کیا جائے مگر یہ چیز منافقوں کی پالیسی کے خلاف تھی، اس لیے ’’صلح کل‘‘ کے وعظ کی آڑ میں شکار کھیلتے رہے، اس پر قرآن کو کہنا پڑا کہ بھائی چارہ باہم کفار تو ہوسکتا ہے، مسلم اور کافر کے درمیان نہیں ہوسکتا۔ اگر اس نکتہ کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو فساد فی الارض کے طوفان اٹھ کھڑے ہوں گے۔
﴿ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ ﴾ (انفال:۱۰)
اور جو کافر ہیں ، ایک دوسرے کے وارث اور دوت ہیں ، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ برپا ہوگا او ربڑا فساد (مچے گا)
بس اس کے جواب میں وہ سیاسی زبان میں کہتے ہیں کہ کافر و مسلم کی تفریق تنگ نظر ہے۔ انسانیت یا کم از کم رنگ و نسل اور وطن کے وسیع تر نظریہ پر بھائی چارہ اور دوستی کی بنیاد رکھنا چاہیے، اس لیے ہم جو کچھ کررہے ہیں ، وہ اصولی، اصلاحی اور عالی ظرفی کی بات ہے، فساد فی الارض کے طعنے دینا غلط ہے۔ خدا نےکہا کہ حدود اللہ