کتاب: محدث شمارہ 33 - صفحہ 10
يُخَادِعُونَ۳؎ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا (یہ لوگ اپنے نزدیک)اللہ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لاچکے ہیں، دھو کا دیتے ہیں او رحقیقت میں دھوکا ____________________________________________ لیے سازگار نہیں رہتا۔ مکہ میں کفر غالب تھا، اس لیے کفر نہ صرف ’’کفر بواح‘‘ تھا بلکہ جارح بھی تھا، اس لیے اس وقت کمزور اپنا ایمان یوں چھپاتے تھے جس طرح کوئی چور سے اپنی دولت کو۔ لیکن مدینہ منورہ میں اوس اور خزرج کے مسلمان ہوجانے کے بعد فضا یکسر بدل گئی تھی، خاص کر غزوہ بدر کے بعد، اس لیے جو منکر حق سیاسی شاطریا بزدل تھے، انہوں نے اپنے کفر کو یوں چھپایا جس طرح چور چوری کو چھپاتا ہے۔ بس اس کانام نفاق ہے۔ تقیہ کی طرح نفاق کا محرک بھی زیادہ تر خالصتاً سیاسی رہا ہے، چنانچہ مدینہ منورہ میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی کے سر پر ’’تاج سروری‘‘ رکھا جانے والا تھا مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد لوگوں کی توجہ بدل گئی۔ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک، آفتاب عالمتاب کے سامنے حقیر ذرہ کی کوئی حیثیت نہ رہی۔ اس لیے جھوٹی عالی ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے ، وہ’’کفر در بغل‘‘ مسلمانوں میں گھل مل گیا اور ماراستین بن کر اپنےمکروہ منصوبوں کی تکمیل میں اپنی پوری عمر کھپا دی۔ علیہ ما علیہ نفاق کادوسرا نام تقیہ ہے۔ حقائق کو چھپانا اور اندھیرے میں رکھ کر مارنا، دونوں کاطول و عرض ہے۔ بہرحال ان کےمتعلق قرآن حکیم کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ایمان کےسلسلے میں زبانی کلامی کتنے ہی بلند بانگ دعاوی کریں ، دل میں جب تک نفاق کا کوڑھ ہےقبول نہیں ہیں اورنہ ہی ان کی یہ لفظی شاطرانہ مسیحائی اُن کےکچھ کام آئے گی۔ (وماہم بمومنین) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: ان اللّٰہ لا ینظر الی صورکم واموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم و اعمالکم (مسلم۔ ابوہریرہ) اللہ تعالیٰ تمہاری شکل و صورت او ردھن دولت کونہیں دیکھتا بلکہ اس کی نگاہ تمہارے دلوں اور اعمال پر رہتی ہے۔ یعنی اگر دل میں کوڑھ تو تمہاری صد سالہ ریاضتیں بےکار ہیں اگر دل میں نور ایمان اعمال کی اساس ہے تو بعض بشری کمزوریوں سےدرگزر بھی ممکن ہے۔ ۳؎ يُخَادِعُونَ: (دھوکا دیتے ہیں ) یہاں سے ان کے بزدلانہ اور گھٹیا کردار کی تفصیل پیش ہونے لگی ہے سب سے پہلے وہ چیز پیش کی گئی ہے جو ’’جان نفاق‘‘ ہے یعنی مخادعت ہے۔بے خدا سیاسی دنیا میں اس کا نام ڈپلومیسی ہے اس کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ اندھی اور برخود غلط ہوتی ہے، اندھی اس لیے کہ اس کی آنکھوں میں حیا نہیں ہوتی