کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 9
5. لاء کالجز میں قانون کی تعلیم کے ساتھ شریعت وفقہ اور عربی زبان کی تدریس کا کوئی انتظام نہیں ۔
6. ججز کی اسلامی شریعت و قانون کی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں ۔
7. وکلا کے پیشے میں جو غیر اسلامی اقدار و رسوم جڑ پکڑ چکی اور اس کا لازمی حصہ بن چکی ہیں ، ان کے ازالے کے لئے کوئی کوششیں بروئے کار نہیں لائی جاتیں ۔
8. نچلی عدالتوں ، ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں مفتی یا شریعت وفقہ کا کوئی ماہر بھی موجود نہیں ہوتا جو بوقتِ ضرورت عدالت کو شریعتِ اسلامی کے حوالے سے ماہرانہ رائے دے سکے۔
9. ہمارا سارا قانونی ڈھانچہ ’برطانوی پروسیجرل لا‘ پر مشتمل ہے جو تاخیر کا سبب بنتا ہے جب کہ اسلامی اُصول یہ ہے کہ عدل میں تاخیر دل کی نفی کے مترادف ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ مقدمات کے فیصلے جلد ہوں اور اسلامی عدالتوں میں ہمیشہ فیصلے جلد ہی ہوتے ہیں ، لیکن ہماری موجودہ عدالتوں میں صورت اس کے بالکل برعکس ہے۔ فوجداری عدالتوں کی حالت بھی الگ سے پتلی ہے، جب کہ ہماری دیوانی عدالتیں تو آدمی کو دیوانہ بنا کررہتی ہیں ایک نسل مقدمہ درج کرائے تو بعض اوقات دوسری نسل کو فیصلہ سننا پڑتا ہے۔
10 . زمانۂ قدیم کی طرح ہماری عدالتوں میں انصاف آج بھی بکتا ہے۔ عدالت میں کورٹ فیس جمع کروانا پڑتی ہے، عدالتی عملے کو بخشش دینا پڑتی ہے اور وکیلوں کی بھاری بھر کم فیسوں سے لوگ کنگال ہو جاتے ہیں ۔
11. یہ بات معروف ہے اور سب تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کی زیریں عدالتوں میں رشوت و کرپشن کی بھرمار ہے حتیٰ کہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی ججوں کے کردار کے کمزور پہلو اکثر اخبارات میں زیر بحث آتے رہتے ہیں ۔
12. فیڈرل شریعت کورٹ قائم تو کی گئی ہے، لیکن وہاں علماء جج تعینات ہی نہیں کئے جاتے بلکہ ہائی کورٹ کے ججوں کو بطورِ سزا وہاں بھجوا دیا جاتا ہے اور عدالت کو اکثر غیر فعال رکھا جاتا ہے۔
13. اعلیٰ عدالتوں کے جج اکثر وکلا میں سے لئے جاتے ہیں بلکہ اسلامی شریعت وفقہ میں مہارت ججوں کی تعیناتی کی شرائط میں سرے سے شامل ہی نہیں ہوتی۔ چونکہ یہ وکلا ان تعلیمی مراحل سے گزرے ہوتے ہیں جن میں شریعت و فقہ کا علم و ادراک نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے،