کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 80
امیر المؤمنین: اچھا بتاؤ، عربوں میں سب سے بڑھ کر ہجویہ شعر کس نے کہا ہے؟
اعرابی: جریر بن عطیہ نے، اور وہ یہ ہے:
فغض الطرف إنک من نمیر فلا کعبًا بلغت ولا کلابا
’’آنکھیں پست کر لے، کیونکہ تو نمیر قبیلے سے ہے۔ نہ تو تو کعب کے مقام کو پا سکتا ہے اور نہ کلاب کے مرتبے تک پہنچ سکتا ہے۔‘‘
یہ سن کر جریر کا دل اس کے سینے میں رقص کرنے لگا اور وہ بے تابانہ اُٹھ کھڑا ہوا تاکہ انسانوں سے بھرا ہوا دربار اسے دیکھ سکے۔ یقین جانئے کہ جریر کو اس موقع پر جو مسرت حاصل ہو رہی تھی، اس کے مقابلے میں شاہوں کے شاہی پروٹوکول کی لذت ہیچ تھی اور پھر پُر لطف کھانوں کی لذت اور مسرت کا تو ذکر ہی کیا۔ امیر المؤمنین نے اعرابی سے پوچھا کہ اب بتاؤ تشبیہ کے اعتبار سے سب سے اچھا شعر کس کا ہے؟
اعرابی: جریر بن عطیہ کا، اور وہ یہ ہے:
سری نحوھم لیل کأن نجومه قنادیل فیھن الذبال ا لمفتل
’’اور ان کی طرف رات کی تاریکی جیسا لشکرِ جہاد چل پڑا اور اس کے ستاروں جیسے نیزے گویا مضبوط بٹی ہوئی بتیوں والی قندیلیں ہیں ۔‘‘
یہ سن کر جریر بول پڑا کہ امیر المؤمنین میرا آج کا انعام اس عذری اعرابی کو دے دیا جائے۔ امیر المؤمنین نے فرمایا: نہیں اے جریر! اسے آپ کے انعام جتنا انعام سرکاری خزانے سے ملے گا اور ہم آپ کے انعام کو بھی کم نہیں کریں گے۔ چنانچہ اعرابی اس دربار سے اس حال میں نکلا کہ اس کے دائیں ہاتھ میں آٹھ ہزار درہم اور بائیں ہاتھ میں نفیس کپڑوں کا گٹھا تھا۔ یہ تو خیر سے جریر کے سامنے کی بات تھی جس سے اس کے اشعر الشعراء ہونے کا ثبوت مل رہا تھا، لیکن صدیوں بعد والے عرب نقاد بھی یہ بات ماننے پر مجبور ہو گئے کہ جریر سے بڑھ کر غزلیہ شعر بھی کسی نے نہ کہا ہو گا، اور وہ یہ ہے:
إن العیون التی فی طرفیھا حور قتلنَنا ثم لم یحیین قتلانا
یصر عن ذا اللبّ حتی لا حراک به وھن أضعف خلق اللہ إنسانًا
’’اس کی نگاہِ سیاہ اَبرو نے ہمیں قتل کر دیا اور پھر ہماری لاشوں میں جان بھی نہ ڈ الی۔ وہ عقل مند کو اس طرح زیر کرتی ہیں کہ اس میں دم تک نہیں رہتا، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے نازل مخلوق ہیں ۔‘‘