کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 8
سوات کی قاضی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں وہی سنی جائیں گی اور یہ کہ وہ پاکستانی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کو شرعی عدالتوں کے لئے بطورِ اپیل کورٹ تسلیم نہیں کرتے اور نہ وکیلوں کے لئے کوئی کردار مانتے ہیں ۔ بظاہر ان لوگوں کے لئے جنہوں نے موجودہ عدالتی نظام کو تسلیم کیا ہوا ہے اور وہ اسے اسلامی سمجھتے ہیں ، یہ بات نا قابل تصور ہے کہ اسے غیر شرعی کہہ کر رد کر دیا جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب پاکستان بنا تو جن لوگوں نے پاکستان بنایا اور اُنہوں نے جو وعدے کئے اور جو لوگوں کا جذبہ اور توقعات تھیں ، اس میں ہر آدمی یہ توقع کرتا تھا کہ پاکستان بنے گا تو ہر طرف ایمان کی بہار آجائے گی، اجتماعی زندگی کے سارے شعبوں میں تبدیلی آئے گی اور ہر شعبے کی اسلامی تناظر میں تنظیم نو ہو گی، لیکن عملاً کچھ بھی نہ ہوا یا یوں کہہ لیجئے کہ بہت ہی تھوڑا ہوا اور برائے نام ہوا۔ قانونی اور عدالتی پہلو سے ذرا مندرجہ ذیل حقائق پر غور کیجئے: 1. دینی قوتوں کے دباؤ ڈالنے، مہمیں چلانے اور جیلوں میں جانے کے نتیجے میں مجبوراً اس وقت کی مسلم لیگی حکومت نے قرار دادِ مقاصد پاس کی اور اس میں آئین کے اسلامی پہلوؤں کا ذکر کیا، لیکن اسے آئین کا دیباچہ بنا دیا گیا اور آئین کے قابل نفاذ حصے میں شامل نہ کیا گیا۔ (جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اسے آئین میں شامل کر لیا گیا، لیکن آئینی تشریحات کے جھرمٹ میں اس کی آپریشنل حیثیت پھر بھی مکمل طور پر بحال نہ ہو سکی)۔ 2. آئین میں یہ بات بھی تسلیم کی گئی کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا، لیکن اسے بھی پالیسی اُصولوں میں ڈال دیا گیا اور آئین کے قابل نفاذ حصے میں شامل نہیں کیا گیا۔ 3. انگریزوں کے بنائے ہوئے ہزاروں قوانین کا تسلسل جاری رکھا گیا۔ 4. اسلامی نظریاتی کونسل بنائی گئی، لیکن اس کا کردار ہمیشہ مشاورتی رکھا گیا اور اسے اختیارات سے محروم رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تناظر میں قانون سازی کے لئے اس کی طرف سے دی جانے والی تمام تجاویز درازوں میں بند پڑی رہ جاتی ہیں ۔ اُنہیں دستوری تقاضے کے مطابق اسمبلی میں پیش نہیں کیا جاتا اور اگر کبھی پیش کر بھی دیا جائے تو اس کے مطابق قانون سازی نہیں کی جاتی۔