کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 7
بلکہ حالات اس کے برعکس ہیں صرف دو شعبوں کی مثال لے لیجئے: 1. ذرائع ابلاغ بے حیائی، عریانی اور فحاشی پھیلا رہے ہیں ۔ میوزک اور ڈانس کو رواج دے رہے ہیں اور مغربی افکار و اقدار کو عام کر رہے ہیں اور مسلم معاشرے کی حیا، عفت، پاکیزگی اور اخوت پر مبنی اقدار کو تباہ کر رہے ہیں ۔ 2. ایسے ہی ہمارا نظام تعلیم آج بھی مغرب کے غلام پیدا کر رہا ہے کیونکہ انگلش میڈیم عام ہے، بچوں کو نرسری سے انگریزی پڑھائی جاتی ہے اورO اور A لیول کے امتحانات، آکسفورڈ کی غیر مسلم و غیر پاکستانی مصنّفین کی لکھی ہوئی کتابیں ، پینٹ کوٹ نکٹائی کا یونیفارم، مخلوط تعلیم، تعلیم کو تجارت بنا دینا۔۔۔ غرض ذہن سازی اور تعمیر شخصیت و کردار کا سارا ڈھانچہ مغربی فکر و تہذیب کے مطابق ہے۔ یہی حال دوسرے شعبہ ہائے زندگی کا ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ ہماری جمہوریت ’اسلامی جمہوریت‘ ہے۔ یہ معاشرے کو اسلامی بنا رہی ہے اور اسے جاری رہنا چاہئے اور اسے خوب پھلنا پھولنا چاہئے، یہ محض خود فریبی ہے۔ ہماری اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ 1. مغربی جمہوریت خلافِ اسلام ہے، کیونکہ مغربی تہذیب کے بنیاد اُصول و نظریات خلافِ اسلام ہیں ۔ 2. مغربی جمہوریت سے مصالحت کر کے اور اس میں اسلام کے چند اُصولوں کی پیوند کاری سے ہمارے حکمرانوں اور بعض دینی رہنماؤں نے ’اسلامی جمہوریت‘ کا جو ملغوبہ تیار کیا تھا، وہ غیر مؤثر ثابت ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں اسلام نہیں آیا بلکہ مغربی تہذیب کا غلبہ ہوا ہے۔ سیاست ہی نہیں بلکہ سارے شعبہ ہائے حیات سیکولر ہو چکے ہیں ۔ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کے حوالے سے مذکورہ بالا حقائق کو تسلیم کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ اس کے بعد عملاً اس مسئلے کا حل کیا ہو، یہ ہم آخر میں عرض کریں گے۔ 2. کیا پاکستان کا عدالتی نظام اسلامی ہے؟ جمہوریت کو کفر کہنے کے علاوہ مولانا صوفی محمد صاحب نے دوسری بات جو کہی ہے اور جو بظاہر بہت سے لوگوں کو چبھی ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام غیر اسلامی ہے۔ پاکستان کی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ آئین کے مطابق فیصلے سناتی ہیں نہ کہ شریعت کے مطابق۔ لہٰذا