کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 6
اس کی حقیقت پر بھی غور کر لیجئے!
اہل مغرب نے چالاکی یہ کہ کہ جب اسے مسلمان ملکوں سے مجبوراً نکلنا پڑا تو اس نے اقتدار جان بوجھ کر ان لوگوں کے حوالے کیا جو اس کی تہذیب کے رسیا اور اس سے مرعوب تھے۔ جو اس کی تہذیب، اس کی فکر، اس کے آئین، اس کے قوانین، اس کی جمہوریت، اس کی تعلیم کو مسلمان معاشرے میں رائج کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ان کے ایک پروردہ (مصطفیٰ کمال اتا ترک) نے بر سر اقتدار آنے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ خلافت کا خاتمہ کر دیا اور مغربی جمہوریت اپنے ہاں نافذ کر دی۔ یہی دوسرے مسلم ممالک میں ہوا۔
علماء نے یہ دیکھ کر کہ خلافت ختم ہو گئی، حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اسلام پر عمل کرنا نہیں چاہتے، جو شریعت نافذ کرنا چاہتے اور اجتہاد کر کے نئے ماحول اور نئی ضرورتوں کے مطابق اسلام کا نیا سیاسی ڈھانچہ بنانا نہیں چاہتے تو اُنہوں نے مجبوراً یہ فیصلہ کیا کہ اگر یہ مسلمان حکمران (جو اندرونِ خانہ مغربی طاقتوں کے آلہ کار تھے، ان کی مدد ہی سے اقتدار میں آئے تھے اور ان کی تائید ہی سے اقتدار میں رہنا چاہتے تھے) کچھ بنیادی اسلامی باتوں کو مان لیں اور اسے آئین میں شامل کر لیں تو ہم اس جمہوریت کو قابل قبول سمجھ لیں گے۔ چنانچہ اُنہوں نے جدوجہد کر کے حکمرانوں سے کچھ باتیں منوا لیں اور باقی باتیں منوانے اور جدوجہد کا راستہ کھلا رکھنے کے لئے اس نظام کے اندر رہ کر کام کرنا منظور کر لیا۔ اس طرح اس مغربی جمہوریت کو جو اصلاً ملحدانہ افکار پر مبنی تھی، مشرف بہ اسلام کر اور سمجھ لیا گیا اور اس پر ہم پاکستانی مسلمان پچھلے ساٹھ سال سے عمل ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ’اسلامی جمہوریت‘ اسلام کے سیاسی نظام کا صحیح مظہر ثابت ہوئی ہے؟ کیا اس سے معاشرہ اسلامی ہوا ہے؟ کیا اس کی مدد سے زندگی کے دوسرے شعبوں میں اسلام آیا ہے؟ کیا اس سے عوام کے مسائل حل ہوئے ہیں ؟ کیا غریبوں کے حالات بدلے ہیں ؟کیا سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ، وڈیروں اور نوابوں سے عوام کی جان چھوٹی ہے؟ کیا اسمبلیوں میں اسلامی کردار و اخلاق کے حامل لوگ پہنچے ہیں ؟ کیا آئین سو فیصد اسلامی ہے؟ کیا سارے قوانین اسلام کے مطابق بنائے جا رہے ہیں ؟ ان سب باتوں کا جواب ہاں میں دینا ممکن نہیں ہے۔