کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 5
خلاصہ یہ کہ مغربی تہذیب کے اِن بنیادی اُصولوں سے مغرب کا جو ورلڈ ویو (طرزِ حیات یعنی تصور انسان، تصور الہ اور تصور کائنات) اُبھر کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی الہ نہیں ، انسان کسی کا عبد نہیں ، زندگی بس اس دنیا کی زندگی ہے، اسی کی فکر کرنی چاہئے (آخرت کی نہیں ) اور حق صرف وہ ہے جو تجربے اور مشاہدے میں آسکے گویا وحی اور قرآن کی نفی! مطلب یہ کہ مغربی افکار کی رو سے ان کے ورلڈ ویو کا نتیجہ ہے: خدا کے تصور کا انکار، رسالت کے تصور کا انکار، آخرت کے تصور کا انکار اور وحی اور قرآن کا انکار یعنی ارکانِ ایمان کا انکار!
ان تصورات کے تحت ہی مغرب کی ساری زندگی اور زندگی کے مختلف شعبوں کا تانا بانا بُنا گیا۔ مثلاً وہاں کی سیاسی زندگی کا محور ہے: جمہوریت۔ جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی خدائی۔ فرد چونکہ ہیومنزم کی رو سے آزاد، خود مختار بلکہ مختارِ مطلق ہے، اس لئے اس کے نمائندے بھی مختارِ مطلق ہیں ۔ وہ جس پارلیمنٹ میں جا کے بیٹھیں گے، وہ بھی مختارِ مطلق ہو گی اور جو قانون چاہے بنا سکے گی، جس چیز کو چاہے حلال اور جس کو چاہے حرام قرار دے سکے گی۔ چنانچہ مغرب کے پارلیمانوں نے جوئے، شراب، زنا، لواطت وغیرہ کو جائز قرار دیا ہوا ہے۔
وہ ریاست اور معاشرے کو چلانے کے لئے جو بنیادی قانون بنا دے (یعنی آئین) وہ بھی مقدس و محترم ہے جس کی خلاف ورزی کی سزا موت ہے، کیونکہ وہ اس فرد کے نمائندوں نے بنایا ہے جو خود مختار اور مختارِ مطلق ہے، جو خود حق ہے اور خود حق و باطل کا فیصلہ کرنے والا ہے، وہ اپنا خدا خود ہے، لہٰذا اس کے نمائندوں کا بنایا ہوا آئین بھی معیارِ حق و باطل ہے۔
یہ ہے مغربی اور جو کچھ ہم نے اس کی فکری اساسات اور خود اس کے بارے میں ابھی بیان کیا ہے، اس کے بعد اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ مغربی جمہوریت خلافِ اسلام ہے۔ یہ جن نظریات پر کھڑی ہے، وہ بھی ملحدانہ ہیں اور اس کا اپنا ڈھانچہ بھی خلافِ اسلام ہے۔
اسلامی جمہوریت؟
جب مغربی جمہوریت کو خلافِ اسلام کہا جائے تو اس کا جواب عام طور پر یہ دیا جاتا ہے کہ چلئے مان لیا کہ مغربی جمہوریت خلافِ اسلام ہے، لیکن ہم کون سا مغربی جمہوریت کو مانتے ہیں ، ہم تو اسلامی جمہوریت کو مانتے ہیں ۔ اب یہ اسلامی جمہوریت کیا ہے؟