کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 4
اصول مانتی ہے اور اس کے خلاف کوئی دلیل سننے کو تیار نہیں ۔ لیکن بایں ہمہ یہ ایک علمی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں کہ مغربی تہذیب جن فکری بنیادوں پر کھڑی ہے، وہ ملحدانہ اور خلاف اسلام ہے۔ مغربی تہذیب جن فکری اساسات اور نظریات پر مبنی ہے ان میں سے اہم چار ہیں : (۱) ہیومنزم (Humanism)) (۲) سیکولرزم (Scularism) (۳) سرمایہ داریت (Capitalism) اور (۴) ایمپریزم (Empiricism) ٭ ’ہیومنزم‘ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنا خدا خود ہے، وہ خود مختار اور آزاد بلکہ مختار کل اور قادرِ مطلق ہے اور اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکتا ہے۔ کوئی بالا تر ہستی ایسی نہیں جس کی اطاعت اس پر واجب ہو۔ ٭ ’ہیومنزم‘ کا تصور چونکہ خدا کو ردّ کرتا تھا اور عیسائیت سے متصادم تھا (خواہ وہ برائے نام ہی تھی) لہٰذا ہیومنزم کے ردّ عمل میں وہاں سیکولرزم کا نظریہ اُبھرا جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی خدا کو ماننا چاہتا ہے تو اپنی پرائیویٹ زندگی میں مان لے، لیکن اجتماعی زندگی سے اس خدا کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے یعنی اس خدا کو یہ حق نہیں کہ وہ معاشرے اور ریاست کے اجتماعی اُمور میں مداخلت کرے۔ ٭ کیپٹل ازم یعنی نظامِ سرمایہ داری اصلاً ایک معاشی نظریہ تھا، لیکن یہ بتدریج طرزِ زندگی بن گیا جس کا مطلب یہ تھا کہ دنیا میں بنیادی اہمیت مال و دولت کو حاصل ہے اور یہی عزت کا معیار ہے۔ لہٰذا ہر فرد کی ساری صلاحیت، وقت اور محنت صرف اسی پر صرف ہونی چاہئے۔ اس تصور نے حبِ دنیا اور حبِ مال کو انسانی جدوجہد کا واحد ہدف بنا دیا اور زیادہ سے زیادہ دولت، سہولتوں اور آسائشوں کا حصول ہی مقصدِ زندگی ٹہرا۔ بنک بیلنس، کار، کوٹھی، معیارِ زندگی یہی حاصل زندگی ہے۔ اس سے منطقی طور پر آخرت کی اہمیت اور اس کا تصور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ٭ ایمپریسزم کا مطلب یہ ہے کہ حق صرف وہ ہے جو تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہو سکے اور جو عقل و دلیل کے مطابق ہو۔ یہ اُصول مغرب میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد بنا اور ما بعد الطبیعیات (مذہبی و اخلاقی اصولوں ) کے رد کا باعث ٹھہرا، کیونکہ اس سے وحی، ایمان اور عقیدے کی نفی ہوتی ہے۔