کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 37
ہمارے نزدیک علما کا جہاد یہ ہے کہ علمائے کرام، دینی جماعتیں اور ان کے کارکنان اور دینی مدارس کے طلبہ، وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں وہنے والے وحشیانہ ڈرون حملوں اور قبائلی علاقوں میں پاکستانی افواج و فضائیہ کی پر تشدد کاروائیوں کے خلاف ملک گیر سطح پر پر امن جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کریں ۔ عوام الناس کی رائے ہموار کریں ۔ سٹریٹ پاور بڑھائیں ۔ اسلامی نظام عدلِ اجتماعی کے نفاذ تک وکلا کی طرح مسلسل مظاہرے کریں ۔ امریکہ کی حمایت ختم کرنے کے لئے حکومتِ وقت کے خلاف دھرنے دیں۔ بے غیرت، بے دین اور ظالم حکمرانوں کی معزولی کی خاطر پر عزم لانگ مارچ کریں ۔ پاکستان کی پاک سر زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لئے ہر پر امن جدوجہد اختیار کریں اور نتائج اللہ کے حوالے کر دیں ۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کا مذہبی طبقہ اس طرح کی پر امن جدو جہد کے ذریعے اسلام، جہاد اور مجاہدین کی جو مدد کر سکتا ہے، وہ تو کرتا نہیں ہے بس ساری توانائی اس پر ہی خرچ ہو جاتی ہے کہ ایک عام سپاہی یا فوجی کافر ہے یا مسلمان؟ عام مسلمان پر قتال فرضِ عین ہے یا فرضِ کفایہ؟ مدارس میں بیٹھ کر جہاد کے حق میں فرضِ عین ہونے کے فتاویٰ جاری کرنے سے یہ نفسیاتی تسکین تو کسی مفتی صاحب کو حاصل ہو سکتی ہے کہ اُنہوں نے جہاد کی خاطر بہت گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں ، لیکن اگر وہی مفتیان حضرات جہاد اور مجاہدین کے حق میں حکومت کے خلاف پر امن مظاہرہ کرتے اور جماعت اسلامی کے کارکنان یا وکلا کی طرح سر پھٹواتے تو خارج میں نتائج بہت مختلف ہوتے۔ ہمارے خیال میں پاکستان میں اسلام و عدل کا نفاذ پرامن جدوجہد اور قربانیاں دینے سے ہو گا اور پاکستان میں نفاذِ اسلام کے بعد ملتِ کفر سےجہاد و قتال کا مرحلہ آئے گا اور ساری دنیا میں اسلام کا غلبہ ریاستی سطح پر ہونے والے جہاد و قتال سے ہو گا۔
ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ انڈیا ہو، امریکہ، اسرائیل ہو یا برطانیہ، ان ظالم اقوام کے ظلم کے خلاف جہاد و قتال اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان میں پہلے اسلامی نظام کا