کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 36
جا سکتی۔ ہمارے خیال میں اگر لال مسجد کے واقعے میں بھی ایک پر امن احتجاجی تحریک کی صورت میں نفاذِ شریعت کا مطالبے کو آگے بڑھایا جاتا تو بہت بہتر تھا۔
اس وقت لوہا گرم ہے اور اس کو چوٹ لگانے کا وقت آگیا ہے۔ علمائے پاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مالا کنڈ میں شریعت کے نفاذ کے تحفظ اور سارے ملک میں نظامِ عدل کے قیام کی خاطر ایک پر امن احتجاجی تحریک کا آغاز کریں ۔ سیاسی پارٹیاں اپنے عہدوں اور وکلا انگریزوں کے بنائے ہوئے کالے قوانین کے تحفظ کی خاطر قربانیاں دے سکتے ہیں ، مظاہرے کر سکتے ہیں ، دھرنے دے سکتے ہیں تو علما اور طلبا، دین اسلام، ظلم و ستم کے خاتمے اور عدل و انصاف کے قیام کی خاطر کیوں ایسا نہیں کر سکتے؟
ہمارے ہاں عام طور پر مفتیانِ کرام مجاہدین کے حق میں قتال کی فرضیت کے فتویٰ جاری کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ شاید اُنہوں نے اپنے حصے کا فرض ادا کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، انڈیا اور ان کے حواریوں کے ظلم و بربریت کے خلاف قتال فرضِ عین ہے، فرضِ عین ہے، فرضِ عین ہے، اگر یہ صفحات اجازت دیتے تو ہم ستر مرتبہ اس جملے کو دہراتے۔ ہمیں اختلاف قتال کی فرضیت میں نہیں ہے بلکہ اس میں ہے کہ کس پر فرض ہے؟ ہمارے نزدیک یہ قتال اسلامی ریاستوں کے سربراہان، حکمرانوں اور اصحابِ اقتدار پر فرض ہے اور علما، طالبانِ دین اور مصلحین پر فرض یہ ہے کہ اپنے ملک کے حکمرانوں اور اصحابِ اقتدار کو اس قتال پر ہر آئینی، احتجاجی، قانونی، لسانی، علمی، اخلاقی اور تحریری ذرائع و وسائل، اخبارات، رسائل و جرائد، الیکٹرانک میڈیا، جلسے جلوسوں ، دھرنوں ، سیمینارز اور کانفرنسوں کے انعقاد، اجتماعی مباحثوں اور مکالموں اور عوامی دباؤ کے ذریعے مجبور کریں اور اگر پھر بھی حکمران اس فریضے کی ادائیگی سے انکار کریں تو مذکورہ بالا تمام پر امن کوششوں کے ذریعے، ان حکمرانوں کی معزولی اور ان کی جگہ اس عہدے کی اہلیت رکھنے والے اصحابِ علم و فضل کی تقریری، علما اور داعیانِ حق کا بنیادی فریضہ ہو گا تاکہ ریاستی سطح پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے عالمی ظلم کے خلاف قتال کا فریضہ سر انجام دیا جا سکے۔