کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 35
1. اس سے اصل مقصود الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اس بحث کو اُجاگر کرنا ہو کہ کیا قرآن و سنت کی روشنی میں حکمران طبقے، موجودہ جمہوری نظام اور حکومتی پالیسیوں میں واقعتاً کچھ مسائل ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے وہ تکفیر کے مستحق ٹھہرتے ہیں تاکہ حکومت وقت کی خارجہ و داخلہ پالیسیوں میں اپنے عوام کے بنیادی حقوق کے پاس، عدل و انصاف کی فراہمی اور اسلامی تعلیمات کے لحاظ کی طرف مثبت میلان و رجحان پیدا ہو۔
2. اس اجتماعی فتوے سے ایک دوسرا اہم تر مقصد یہ حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام اور نفاذِ شریعت کے لئے وکلا کی چیف جسٹس بحالی تحریک یا نواز شریف کے لانگ مارچ کی طرز پر سارے ملک میں ایک پر امن عوامی احتجاجی تحریک برپا کی جا سکتی ہے۔
ہمارے مخلص مذہبی طبقے بالخصوص کا المیہ یہ ہے کہ نفاذِ شریعت یا قیامِ خلافت کے لئے ان کے ذہن میں کوئی منہج ہے تو وہی خروج یا بغاوت کا طریقہ کار ہے جو فی زمانہ ریاست اور کسی عوامی جماعت کے مابین بہت زیادہ عدمِ توازن کی وجہ سے ناقابل عمل ہونے کے ساتھ ساتھ ناممکن بھی ہو چکا ہے۔ اور اس منہج کے تیزی سے پھیلنے کا بنیادی سبب ہمارے حکمرانوں کا حد سے بڑھتا ہوا ظلم ہے۔ اگر جذبات کی بات ہوتی تو شاید ہم بھی کہتے کہ حجاج کی نسل سے تعلق رکھنے والے معصوم بچیوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں کے ان قاتلوں کی سزا یہ ہے کہ مال روڈ پر لا کر ان پر ٹینک چڑھا دیئے جائیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم کر کیا سکتے ہیں ؟
اس وقت جذبات سے زیادہ عقل کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں نفاذِ شریعت کی عسکری تنظیموں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہاں عمل، فکر سے پچاس کلو میٹر آگے دوڑ رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فکر و عمل کا دوڑ مقابلہ ہو رہا ہو۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ کو امریکہ اور اس کے حواریوں سے یہ جنگ جیتنے کے لئے جسم و جان سے زیادہ فکر و نظر کے استعمال کی ضرورت ہے۔ نفاذِ شریعت کے لئے ایک طویل جدوجہد کے بعد مولانا صوفی محمد کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی تھی کہ پاکستان میں سکریت یا خروج کے رستے کامیابی حاصل نہیں کی