کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 32
اپریل، مئی اور جون ۲۰۰۸ء میں چار اقساط میں شائع ہو چکا ہے۔ سونے پر سہاگہ یوں ہوا کہ حکومتِ پاکستان نے صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں کے بعد اپنی خفت مٹانے کے لئے اپنی فضائی فورسز کو معصوم قبائلی عوام کو شہید کرنے پر لگا دیا۔ قبائلی علاقوں اور مالا کنڈ ڈویژن میں امریکہ اور ان کے حواری پاکستانی حکومت کے خلاف دفاعی جہاد کی اس تحریک نے کئی ایک طالبان گروہوں اور جہادی تحریکوں کو جنم دیا اور بڑھتے بڑھتے اس تحریک نے اقدامی قتال، خود کش حملوں ، قتال فرضِ عین اور امریکہ نواز حکومتوں کی تکفیر کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیا۔
اس دفاعی جہاد کے اقدامی قتال کے مرحلے میں داخل ہونے کے پیچھے مقامی افراد کے رد عمل کے علاوہ ایک اہم سبب یہ طرزِ فکر بھی ہے کہ پاکستان میں بھی ایک حقیقی اسلامی ریاست کا قیام صرف عسکری طریقے ہی سے ممکن ہے۔ سوات میں اُبھرتی ہوئی طالبان تحریک، پرویز مشرف کی امریکہ نواز حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں نے یہ فکر عام کر دیا ہے کہ مذہبی حلقے کو امریکہ کی غلامی کے علاوہ پاکستان کے ظالم حکمرانوں سے بھی نجات حاصل کرنی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ آزادی ہر مسلمان، مسلمان تو کیا ہر انسان کا ایک بنیادی حق ہے۔
آج صوفی محمد کی تحریک کو کبھی رحمٰن ملک، کبھی زرداری، کبھی الطاف حسین اور کبھی جنرل کیانی یہ الزام دیتے نظر آتے ہیں کہ یہ تحریک لوگوں پر اسلام کے نام پر جبراً اپنے انتہا پسندانہ نظریات مسلط کرنا چاہتی ہے۔ ہم یہ پوچھتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک تقریباً ساٹھ سال کے طویل عرصے میں چند افراد پر مشتمل حکومتی ٹولے یا مارشل لاء ڈکٹیٹروں نے ملک کے مذہبی حلقوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ آئین و قانون کے نام پر عوام الناس پر ان کی مرضی کے خلاف اپنے ملحدانہ اور کفریہ نظریات کو کبھی ’انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء‘ کے نام پر اور کبھی ’تحفظِ حقوقِ نسواں بل‘ کی آڑ میں جبراً نافذ کرنا یا بے گناہ پاکستانی عوام کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے ہاتھوں چند ڈالروں کے عوض بیچ دینے کو کیا آزادی و مساوات کا نام دیا