کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 30
جدوجہد کا مرہونِ منت تھا۔ ایک وقت تھا جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل میں ملک کے جید علماء شامل ہوتے تھے اور اب صورت اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔ بہرحال اکثر و بیشتر ایسا ہوا کہ علما کی تحریک کے نتیجے میں حکومتِ وقت کی طرف سے جب بھی قانون و آئین کو اسلامی بنانے کے لئے کچھ ادارے قائم ہوئے یا بورڈ بنائے گئے، یا تو وہ ملکی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے یا اگر علمائے حق کو ان اداروں میں نمائندگی کا موقع دیا بھی گیا تو ان کی بیش بہا تحقیقات کو ردّی کی ٹوکری کی نذر کر دیا گیا۔ اصحابِ اقتدار کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے آہستہ آہستہ علما کے ایک طبقے میں بھی مایوسی اور بد دلی اس قدر گھر کر گئی کہ وہ نفاذِ اسلام کے لئے پر امن آئینی و قانونی جدوجہد سے بھی کٹ کر ہمہ تن قرآن و حدیث کی تعلیم میں مشغول ہو گئے۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہوا۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کے نتیجے میں پاکستان کے مذہبی حلقوں میں جذبہ جہاد کی آبیاری ہوئی۔ اس جہاد کے نتیجے میں افغانستان میں روس کو شکست ہوئی اور طالبان کی حکومت قائم ہو گئی۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملہ ہوا، امارتِ اسلامیہ افغانستان ختم ہو گئی اور امریکہ کے خلاف طالبان کی طویل گوریلا جنگ کا آغاز ہوا۔ وزیرستان، مالا کنڈ ڈویژن، سوات اور صوبہ سرحد کے کئی ایک دوسرے حصوں سے مجاہدین کی ایک بہت بڑی تعداد جہادِ افغانستان میں شریک ہونے کے لئے افغانستان گئی، لیکن وہاں کے طالبان کو اس وقت کے مخصوص حالات کے اعتبار سے افراد کی بجائے حکمتِ عملی اور جدید اسلحہ کی زیادہ ضرورت تھی۔ پس افغانستان کے خاص حالات کے پیش نظر پاکستانی مجاہدین کی اتنی بڑی تعداد طالبان کے لئے ایک اضافی بوجھ تو بن سکتی تھی، لیکن مفید نہ تھی۔ چنانچہ طالبان قیادت سے مشورے کے نتیجے میں یہ مجاہدین واپس پاکستان آگئے۔ دوسری طر امریکہ نے پرویز مشرف حکومت پر القاعدہ، طالبان اور عرب مجاہدین کو پکڑوانے میں تعاون کے لئے دباؤ ڈالا تو پرویز مشرف کی حکومت نے امریکی ڈالروں کے حصول کی خاطر سوات اور مالا کنڈ ڈویژن کے افغانستان سے واپس آنے والے مقامی مجاہدین