کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 26
اس لئے اگر کوئی بد بخت لڑکا اپنے باپ کو قتل کر دے گا تو مذکورہ حدیث کے حکم کے مطابق اپنے مقتول باپ کی میراث سے محروم ہو جائے گا۔
قرآن کا حکم عام تھا کہ ہر بیٹا اپنے باپ کے ترکے کا وارث ہو گا مگر حدیث نے قاتل بیٹے کی تخصیص کر دی کہ وہ اپنے باپ کے ترکے کا وارث نہیں ہو سکتا۔ یہی اسلامی شریعت ہے اور اہل علم کا اسی پر اتفاق اور اجماع ہے کہ قاتل کو مقتول کی وراثت سے محروم کیا جائے گا۔ اس طرح حدیث نے قرآن کے ایک حکم عام میں تخصیص کر دی ہے۔
٭ تخصیص کی دوسری مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (البقرۃ: ۲۷۵)
’’اور اللہ نے تجارت کو حلال اور سُود کو حرام ٹھہرایا ہے۔‘‘
مذکورہ آیت ہر طرح کی تجارت کو حلال ٹھہراتی ہے، کیونکہ اس میں عموم پایا جاتا ہے۔ لیکن صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ:
((إن اللہ ورسوله حرَّما بیع الخمر والمیتة والخنزیر والأصنام))
’’بے شک اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب، مردہ جانور، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری: کتاب البیوع، حدیث ۲۲۳۶)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں شراب، مردہ جانور، خنزیر اور بتوں کی تجارت حرام ہے۔ اب اگر قرآن کے حکم کو دیکھا جائے تو ہر قسم کی تجارت حلال ہے، کیونکہ قرآنی الفاظ میں مردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت حرام ہے اور قرآن میں جس تجارت کے حلال ہونے کا ذِکر ہے اس میں شراب، مردار، خنزیر او بتوں کی تجارت شامل نہیں ہے۔
اب اگر غامدی صاحب کے بتائے اس اُصولِ حدیث کو مانا جائے کہ حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص نہیں ہو سکتی تو پھر مذکورہ صحیح حدیث کا انکار کرنا پڑے گا اور اسلام میں شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت بھی حلال ہو جائے گی جو غامدی صاحب کی خود ساختہ شریعت تو ہو سکتی ہے مگر وہ اسلامی شریعت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث سے قرآن کے کسی حکم میں تحدید و تخصیص کو نہ ماننا ’’محض سوے فہم اور قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔‘‘