کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 25
اس آیت میں یہ حکم ہے کہ فاعتزلوا النساء فی المحیض (پس تم بیویوں سے اُن کے حیض کی حالت میں الگ رہو) یہ الگ رہنا ایک مطلق حکم ہے جس کا مطلب یہ بھی ہو سکا تھا کہ ایسی حالت میں بیویوں سے الگ تھلگ رہو۔ اُن کو الگ مقام پر رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دو اور ان سے میل جول نہ رکھو۔ لیکن اس بارے میں صحیح احادیث سے قرآن کے اس مطلق حکم کی تحدید ثابت ہو کہ ایسی حالت میں بیویوں سے صرف مباشرت منع ہے، اس کے سوا سب کچھ جائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث سے کسی قرآنی حکم کی تحدید ہو سکتی ہے۔
خود غامدی صاحب حدیث کے ذریعے قرآن کے اس مطلق حکم کی تحدید کو مانتے ہیں ۔ چنانچہ وہ اسی حوالے سے ایک حدیث نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’انہی (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) سے روایت ہے کہ ہم میں سے کوئی حیض کی حالت میں ہوتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب آنا چاہتے تو ہدایت کرتے کہ حیض کی جگہ پر تہہ بند باندھ لے، پھر قریب آجاتے۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث: ۲۹۲)
(میزان: ص ۴۳۳، طبع سوم، مئی ۲۰۰۸ء؛ قانونِ معاشرت: ص ۴۳، طبع اوّل، مئی ۲۰۰۵ء، لاہور)
اس طرح غامدی صاحب پہلے اپنا یہ اُصولِ حدیث بتاتے ہیں کہ حدیث سے قرآن کے کسی حکم کی تحدید نہیں ہو سکتی اور پھر اپنے اس اُصول کی خود ہی خلاف ورزی کرتے ہوئے قرآن کے احکام کی تحدید حدیث ہی سے ثابت کر دیتے ہیں ۔
٭ حدیث کے ذریعے کسی قرآنی حکم میں تخصیص واقع ہونا اہل علم کے نزدیک ثابت ہے۔ اس کی پہلی مثال یہ ہے:
﴿ یُوْصِیْکُمُ اللهُ فِيْ اَوْلَادِكُمْ لِلْذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الاُنْثَيَيْنِ۔۔۔﴾ (النساء:۱۱)
’’اللہ تمہارے اولاد کے بارے میں تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ (وراثت میں ) ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے۔‘‘
اس آیت سے واضح ہے کہ اولاد ہر حال میں اپنے والدین کے ترکے کی وارث ہو گی اور بیٹے کو بیٹی سے دکنا حصہ ملے گا۔ لیکن صحیح حدیث میں ہے کہ:
((لا یرث القاتل شیئاً)) (سنن ابو داؤد، کتاب الدیات، حدیث ۴۵۶۴)
’’قاتل وارث نہیں ہو سکتا۔‘‘