کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 24
اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْھِنَّ سَبِيْلًا اِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا﴾(النساء: ۳۴)
’’اور جن بيويوں سے تمہیں سر کشی کا اندیشہ ہو اُنہیں سمجھاؤ، ان سے ہم بستری چھوڑ دو اور (اس پر نہ مانیں تو) اُنہیں مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو ان کے خلاف الزام تراشی نہ کرو۔ بے شک اللہ سب سے برتر اور بہت بڑا ہے۔‘‘
اس آیت کے الفاظ: واضربوھن (اور ان بیویوں کو مارو) مطلق تھے اور یہ مارنا ہر طرح مارنا اور زخمی کرنا ہو سکتا تھا، لیکن ایک حدیث کے ذریعے قرآن کے اس مطلق حکم میں یہ تحدید (تقیید) ہو گئی ہے کہ صرف ایسی مار جائز ہے جو اتنی تکلیف دہ نہ ہو کہ اُس سے کسی عضو کو کوئی نقصان پہنچ جائے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
((فاضربوھن ضربا غیر مبرح))۔۔۔۔ (صحیح مسلم حدیث: ۲۹۵۰)
’’پس تم ان کو اتنا مار سکتے ہو جو ایسا تکلیف دہ نہ ہو کہ اس سے انکے کسی عضو کو کوئی نقصان پہنچے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ حدیث سے قرآن کے کسی حکم کی تحدید ہو سکتی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ غامدی صاحب نے خود اپنے ’اُصولِ حدیث‘ کے خلاف حدیث کے ذریعے قرآن کی مذکورہ آیت کے حکم وَاضْرِبُوْھُنَّ (اور ان بیویوں کو مارو) کی تحدید مانی ہے کہ اس سے مراد صرف ایسی سزا ہے جو پائیدار اثر نہ چھوڑے۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب ’میزان‘ اور ’قانونِ معاشرت‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حد ’غیر مبرح‘ کے الفاظ سے متعین فرمائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی سزا نہ دی جائے جو کہ پائیدار اثر چھوڑے‘‘ (میزان: ص ۴۲۳، طبع سوم ۲۰۰۸ء، لاہور؛ قانونِ معاشرت، ص ۳۰، طبع اوّل، مئی ۲۰۰۵ء، لاہور)
دین کے بارے میں ایسے کھلے تضاد کا حامل ہونا صرف غامدی صاحب ہی کو زیب دیتا ہے۔
2. تحدید کی دوسری مثال یہ ہے:
﴿ وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِيْضِ قُلْ ھُوَ اَذًي فَاعْتَزِلُوْا النْسَآءَ فِيْ الْمَحِيْضِ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰي يَطْھُرْنَ ﴾(البقرة: ۲۲۲)
’’اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں وہ ایک گندگی ہے لہٰذا اس میں بیویوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ، اُن کے قریب نہ جاؤ۔‘‘