کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 23
پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے۔ اگر اس میں نہ ملے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف رجوع کرے۔ اگر اس میں نہ ملے تو پھر اس کے معلوم کرنے کا راستہ اجتہاد ہے۔‘‘
(تدبر قرآن: جلد ۲، ص ۳۲۵، طبع ۱۹۸۳ء لاہور)
پھر مولانا اصلاحی نے اس آیت کی مزید تفسیر کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ:
’’اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ قانونِ اسلامی کے مرجع کی حیثیت سے کتاب اللہ کی طرح سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت بھی مستقل اور دائمی ہے۔ اس لئے کہ فرمایا کہ فردّوہ الی اللہ والرسول (پس اس کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ) ظاہر ہے کہ یہ ہدایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہی تک کے لئے محدود نہیں ہو سکتی، اس لئے کہ اس اختلاف کے پیدا ہونے کا غالب امکان تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی تھا اور آیت خود شہادت دے رہی ہے کہ اس کا تعلق مستقبل ہی سے ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام ہو سکتی ہے۔‘‘ (ایضاً: جلد ۲، ص ۳۲۶، طبع ۱۹۸۳ء لاہور)
اس سے معلوم ہوا کہ غامدی کا یہ دعویٰ کہ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ صرف قرآن کی روشنی میں ہو گا، ایسا بے اصل اور غلط دعویٰ ہے جو کہ قرآنِ مجید کے بھی خلاف ہے، سنت کے خلاف ہے، اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم و اجماعِ اُمت کے بھی خلاف ہے اور اُن کے بھی خود اپنے اُستاذ امام کے موقف کے بھی خلاف ہے۔
2. کیا حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید یا تخصیص ہو سکتی ہے؟
غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بھی بالکل غلط ہے کہ حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے ذریعے قرآنِ مجید کے بہت سے احکام کی تحدید اور تخصیص ہوئی ہے اور اہل علم کے ہاں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
حدیث سے قرآنی حکم کی تحدید کی مثالیں :
حدیث کے ذریعے قرآنِ مجید کے کئی احکام میں تحدید واقع ہوئی ہے۔ ذیل میں اس کی دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
1. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِيْ الْمَضَاجِعْ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ