کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 22
1. دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ صرف قرآن کی روشنی میں ہو گا۔
2. حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہیں ہو سکتی۔
3. اگر قرآن کے کسی حکم میں حدیث سے تحدید و تخصیص مان لی جائے تو اس سے قرآن کا میزان اور فرقان ہونا مشتبہ اور مشکوک ہو جاتا ہے۔
1. کیا دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ قرآن کی روشنی میں ہو گا؟
غامدی صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ صرف قرآن کی آیاتِ بینات کی روشنی میں ہو گا۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خود قرآن مجید ہی ان کے اس دعوے کی تردید کر دیتا ہے۔ وہ ہر معاملے کے فیصلے کے لئے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتا ہے۔
گویا دوسرے لفظوں میں دین کے ہر معاملے کا فیصلہ قرآن او حدیث و سنت کی روشنی میں کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
﴿ یٰاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْآ اَطِيْعُوْا اللهَ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِيْ الْاَمْرِ مِنْكُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَي اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاَخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَں تَاوِيْلًا ﴾(النساء: ۵۹)
’’اے ايمان والو! اطاعت كرو الله، اطاعت كرو رسول صلی اللہ علیہ وسلم كی اور اُن كی جو تم میں سے اہل اختیار ہیں ۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی طریقہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھا ہے۔‘‘
یہ آیت اس بارے میں نص قطعی ہے کہ اہل ایمان کے درمیان کسی بھی مسئلے کی شرعی حیثیت معلوم کرنے کے لئے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے ا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دین کے ہر معاملے میں ردّ و قبول کا فیصلہ قرآن اور حدیث و سنت کی روشنی میں ہو گا، نہ کہ صرف قرآن کی روشنی میں ۔
چنانچہ غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت کے تحت لکھا ہے:
’’رد إلی اللہ والرسول کا طریقہ یہ ہے کہ جب کسی امر میں شریعت کا حکم معلوم کرنا ہو تو