کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 15
وقت موجود حکمران خصوصاً (اے این پی اور پی پی پی) نفاذِ اسلام کے حوالے سے مخلص ہیں ہی نہیں ۔ یہ تو مجبوری اور صوفی محمد اور طالبان کے دباؤ میں ان کے کم سے کم مطالبات ماننا چاہتے ہیں بلکہ وعدہ کر کے ان سے بھی حیلے بہانے مکر جانا چاہتے ہیں ۔ دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ، لیکن ناقابل انکار حقیقت ہے کہ قبائلی علاقوں میں نفاذِ شریعت کی علمبردار مجاہدین کی بعض تنظیمیں بھی اس کام کے لئے مخلص نہیں ، کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنے گھس بیٹھئے اور مداخلت کار داخل کر دیئے ہیں اور ان کو اُنہوں نے مجاہدین کی تنظیموں میں بھی داخل کر دیا ہے اور بعض کو ڈالروں سے خرید لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے ان قبائلی علاقوں میں مجاہدین اور طالبان کے بعض غیر مخلص لوگ اور گروہ حکومتِ پاکستان اور اس کے اداروں کو زک پہنچانا چاہتے ہیں اور امن قائم ہونے دینا یا اسلام کا نفاذ ان کا دردِ سر ہی نہیں ۔ ان کی ڈوریاں تو کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں اور ہلانے والوں کے مقاصد یہ ہیں کہ عالم اسلام کے اس عظیم ایٹمی ملک کو سیاسی اور معاشی عدمِ استحکام اور فکری انتشار کا شکار کر دیا جائے، اسے ایٹمی قوت نہ رہنے دیا جائے اور اسے بھارت کا غلام بنا دیا جائے۔۔۔۔۔ اللہ ہمیں ان کی مکروہ سازشوں سے بچائے، پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہمارے حکمرانوں کو اپنے ذاتی مفادات کے چنگل سے نکل کر ملک و ملت کے مفاد میں فیصلے کرنے کی توفیق طا فرمائے۔ آمین! 4. سوات اور طالبانائزیشن؛ حل کیا ہے: یہ موقف اختیار کرنے کے بعد کہ مولانا صوفی محمد اور طالبان کی یہ رائے صحیح ہے کہ مغربی جمہوریت کفر ہے، پاکستان کی ’اسلامی جمہوریت‘ غیر مؤثر اور ناکام ثابت ہو چکی ہے اور پاکستان کا نظامِ عدل اسلامی تقاضے پورے نہیں کرتا۔ لیکن دوسری طرف امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں قوت کے استعمال، غیر صالح مسلم حکمران کے خلاف جہاد کرنے اور نفاذِ شریعت کے طریق کار اور اس کی حکمتِ عملی اور ترجیحات کے تعین کے حوالے سے مولانا صوفی محمد اور طالبان کی پالیسیاں جمہور علماء اور جمہور مسلمانوں کی متفقہ رائے کے خلاف ہیں جنہیں وہ بزورِ باز و نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کا حل کیا ہو؟ صحیح فیصلے پر پہنچنے کے لئے ہمیں حالات کے تمام پہلو ایک نظر میں سامنے رکھنا ہوں گے، چنانچہ ہماری طالب علمانہ رائے