کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 14
ذہن سازی کے بعد، تدریج کے ساتھ عصری تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کرنا چاہئے جب کہ مولانا صوفی محمد اور طالبان کا اُسلوب یہ ہے کہ وہ اس نازک اور حساس کام کو الل ٹپ طریقے سے اور غلط ترجیحات کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں ۔ دین کی کس کتاب میں یہ لکھا ہے کہ نفاذِ شریعت کا آغاز نفاذ حدود اور کوڑے مارنے سے کرنا چاہئے؟ مولانا شرف علی تھانوی نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اگر مجھے حکومت مل جائے تو پہل دس سال تطہیر افکار اور اصلاحِ قلوب و عقول کا کام کروں۔ اسی طرح مولانا مودودی نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد لکھا تھا کہ افراد کی تربیت اور ماحول کی تبدیلی کے بغیر موجودہ حالات میں نفاذِ حدود مناسب نہیں ۔ اور نفاذِ شریعت کی یہ کون سی ترجیح ہے کہ اس کی ابتدا کالی پگڑی پہننے کے وجوب سے کی جائے یا حجاموں کی دکانیں ، بچیوں کے سکول اور سی ڈی کی دکانیں جلانے سے کی جائے؟ نفاذِ دین کی ترجیحات کی صحیح بنیاد یہ ہے کہ پہلے تطہیر افکار اور اصلاحِ قلوب و عقول کے لئے سنجیدہ محنت کی جائے، لوگوں کی دینی تعلیم و تربیت کی جائے اور ابتدا ترغیب سے ہو نہ کہ ترہیب سے، سدِ ذریعہ کے طور پر پہلے برائی کے رستے بند کئے جائیں ، لوگوں کی ضروریات پوری کی جائیں ، دین پر عمل کو لوگوں کے لئے پر کشش بنایا جائے، معاشرے میں باہم اخوت و محبت پیدا کی جائے تاکہ وہ دینی احکام پر عمل کرنے اور خیر کے راستے پر چلنے میں ایک دوسرے کا دست و بازو بنیں ، ان سب مراحل کے بعد کہیں ترہیب اور سزا کا سوچا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حکمران نفاذِ شریعت میں سنجیدہ اور مخلص ہوں تو مولانا صوفی محمد اور پاکستانی طالبان کے تصورِ شریعت کے معاملے سے نمٹا جا سکتا ہے اور اس کی آسان صورت یہ ہے کہ تحریکِ نفاذِ شریعت محمدی اور پاکستانی طالبان کے رہنماؤں سمیت پاکستان کے سارے مسالک کے اہم اور معتدل مزاج علماء کا ایک ‘شریعت بورڈ‘ بنا دیا جائے جو پاکستان میں نفاذِ شریعت کی حکمتِ عملی اور ترجیحات کا تعین کرے اور اس کی متفقہ سفارشات پر عمل کر لیا جائے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کیونکہ مولانا صوفی محمد اور طالبان بیک وقت حکومت اور سارے علماء سے لڑائی مول لینا نہیں چاہیں گے اور اگر بفرضِ محال وہ من مانی پر اُتر بھی آئیں تو عوام کی حمایت سے محروم ہو جائیں گے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران عموماً اور صوبے اور مرکز میں اس