کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 13
لازمی نتیجہ تخت یا تختہ کی صورت میں نکلتا ہے۔ نکلنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ ’شرعی جہاد‘ کے لئے نکلے ہیں جب کہ یہ حکمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ قانونی طور پر قائم مسلم حکومت کے خلاف ’بغاوت‘ فرو کر رہے ہیں لہٰذا وہ پوری قوت سے اُنہیں کچلنے اور امن و امان بحال کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔ چنانچہ یہ ’خروج‘ کامیاب ہو جائے تو ‘اسلامی انقلاب‘ اور ناکام ہو جائے تو ‘بغاوت‘ بن جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں مسلمانوں میں باہم قتل و غارت ہوتی ہے، معاشرے میں بد امنی پھیلتی ہے، زندگی کی ساری سرگرمیاں تلپٹ ہوتی ہیں اور اس انتشار و اضطراب سے اُمت کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی اُصول پر امت کا ماضی میں عمل رہا ہے اور ا بھی ہے۔ پاکستان میں 90 فیصد یا اس سے بھی زیادہ چونکہ اہل سنت رہتے ہیں جن کے علماء کا یہی موقف ہے لہٰذا مولانا صوفی محمد، طالبان اور قبائلی علاقوں کے دوسرے مسلح گروہوں کا موقف جمہور اُمت کے خلاف ہے۔ جس کی زندہ مثال لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا معاملہ ہے کہ وفاق المدارس کے جید علماء اور اس کی مرکزی قیادت کا فیصلہ یہی تھا کہ اُنہوں نے مولانا عبدبرادران سے کہا تھا کہ آپ کے مقاصد اور اہداف صحیح ہیں ، لیکن آپ کا طریق کار صحیح نہیں ہے۔ اور خصوصاً آج کل کے سیاسی در میں جب ہر ملک کا آئین پر امن تبدیلی کا راستہ کھولتا ہے خواہ وہ انتخابات کی صورت میں ہو یا سول نافرمانی کی صورت میں ، بشرطیکہ عامۃ المسلمین کی حمایت آپ کو حاصل ہو۔ اس وجہ سے آج کل جمہور علما پر امن تبدیلی ہی کی حمایت کرتے ہیں خواہ مسلم حکمران کتنے ہی غیر صالح اور غیر مقبول کیوں نہ ہوں ، چنانچہ مشرف جیسے سیکولر، ظالم اور جابر ڈکٹیٹر کے خلاف بھی جس نے پاکستان کو امریکہ کے ہاتھوں تقریباً بیچ ہی دیا اور وہ بھی صرف اپنے اقتدار کی قیمت پر، جمہور علما نے کبھی اس کے خلاف اُمت کو ہتھیار اُٹھانے کی اجازت کا فتویٰ نہیں دیا اور وہ اب بھی حکومت پاکستان اور اس کی فوج کے خلاف طالبان اور دیگر گروہوں کی جدوجہد کو ‘شرعی جہاد‘ قرار نہیں دیتے۔ 3. نفاذِ شریعت کی حکمتِ عملی اور ترجیحات کے حوالے سے: بلاشبہ مسلم حکمرانوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں شریعت نافذ کریں ، لیکن نفاذِ شریعت کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے اور اس کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں ؟ اس حوالے سے بھی مولانا صوفی محمد اور طالبان کا موقف جمہور علما کے خلاف ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک نفاذِ شریعت کا کام