کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 12
اُسلوب سے صرفِ نظر کر لیا جائے تو ان کے اس موقف میں وزن ہے کہ مغربی جمہوریت مبنی بر کفر اور خلاف اسلام ہے اور پاکستان میں مروج ’اسلامی جمہوریت‘ اسلامی تناظر میں اپنے نتائج کے حوالے سے غیر مؤثر اور ناکام ثابت ہوئی ہے اور اسی طرح پاکستان کا عدالتی نظام صحیح اسلامی تقاضوں پر پورا نہیں اُترتا۔ لیکن ان معاملات کی تفصیل میں جایا جائے اور نفاذِ شریعت کے حوالے سے مولانا صوفی محمد اور طالبان کی دوسری پالیسیوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ ان کا موقف دین کی مین اسٹریم اور جمہور علماء کے متفقہ فیصلے اور اُمت کے مجموعی تعامل کے خلاف ہے خصوصاً تین معاملات میں :
1. امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں قوت کے استعمال کے حوالے سے:
جمہور علماء کا موقف صدیوں سے یہ ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام پر امن طریقے سے ہونا چاہئے اور طاقت استعمال کرنے کی اجازت صرف وہاں ہے جہاں کسی کے پاس اختیار ہو، اور جتنا اختیار ہو اتنی ہی طاقت استعمال کرنی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حکومت اپنی یہ ذمہ داری پوری نہ کرے تو عامۃ المسلمین اور دینی جماعتوں اور اداروں کو حکومت کو توجہ دلانی چاہئے کہ وہ اپنے اس اہم دینی فریضے سے غفلت کا ارتکاب نہ کرے، اور جہاں تک یہ ہو سکے، پر امن طریقے سے یہ خام خود بھی کرنا چاہئے، لیکن کسی گروہ کو حکومت کی طرح یہ اختیار بہر حال نہیں ہے کہ وہ قوت و طاقت سے یہ فریضہ انجام دینے لگے جیسے امر بالمعروف میں نفاذِ حدود یا نہی عن المنکر میں اسدادِ عریانی و فحاشی وغیرہ، کیونکہ جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ ان کاموں کے لئے حکومتی اختیار ضروری ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر اسی صورت میں کئے جا سکتے ہیں جب کہ اس سے بڑا شر پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
2. غیر صالح مسلم حکمران کے خلاف خروج کے حوالے سے:
سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم، متقی، پر عزم، شجاع، بارسوخ اور قرابت دارانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد، شہادت اور قربانی کے باوجود نظامِ سلطنت میں تبدیلی نہ آنے سے اُمت (خصوصاً اہل سنت) میں یہ رویہ اہمیت اختیار کر گیا کہ آئندہ سیاسی نظام کو قوت سے بدلنے کی بجائے پر امن طور پر تبدیل کرنے کا راستہ اپنایا جائے اور اسی پر پچھلے ساڑھے تیرہ سو سال سے اُمت کا عمل ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ غیر صالح مسلم کمران کو قوت سے بدلنے کا