کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 11
ڈھانچے کو اسلامی کہنا بہت مشل ہے۔
یہ بھی ظاہر ہے کہ اس ڈھانچے کو کوئی اس لئے غیر اسلامی نہیں کہتا کہ ججوں کو قاضی اور وکیلوں کو مفتی کیوں نہیں کہا جاتا، یا ہائی کورٹ کو دار القضاء کیوں نہیں کہا جاتا؟ اور وکیل اور جج پینٹ اور نکٹائی پہن کر عدالتوں میں کیوں آتے ہیں ؟ یہ چیزیں غیر اہم ہیں ۔ اصل بات وہ نقائص اور کوتاہیاں ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
لہٰذا اگر ہم موجودہ عدالتی نظام کو بدلنا چاہتے ہیں اور اسے اسلام کے مطابق بنانا چاہتے ہیں تو ان ساری خامیوں کو دور کرنا ہو گا۔ آئین کے قابل نفاذ حصے میں یہ لکھنا ہو گا کہ قرآن و سنت سپر آئین ہیں ، قانون کا بنیادی مآخذ ہیں اور آئین کا کوئی جزو قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ پارلیمنٹ اور انتظامیہ کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتیں جو قرآن و سنت کے خلاف ہو اور عدالتیں اس امر کی پابند ہونی چاہئیں کہ وہ فیصلے قرآن و سنت کے مطابق کریں گی۔ پھر اسمبلیوں میں قانون سازی کو اسلام کے مطابق رکھنے کے لئے ضروری اقدامات کرنا ہوں گے جیسے عام ارکان کے لئے اخلاق و کردار کی کڑی شرائط اور اسلامی شریعت و فقہ کے ماہرین کے اسمبلی میں پہنچنے کا اہتمام جس کی کئی صورتیں ممکن ہیں ، لیکن تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔
قانون کی تعلیم کے ساتھ شریعت و فقہ اور عربی زبان کی تدریس کو لازمی کرنا ہو گا۔ موجودہ وکیلوں اور ججوں کی اسلامی شریعت و فقہ اور عربی زبان میں تربیت کا انتظام کرنا ہو گا۔ انصاف کی فوری فراہمی کے لئے موجودہ طریق کار کو بدلنا ہو ا۔ وکیلوں ، پولیس اور جیل کے نظام میں مؤثر اصلاحات لا کر ان کا کردار بدلنا ہو گا۔
خلاصہ یہ کہ ہمارا موجودہ عدالتی نظام غیر اسلامی ہے اور جب تک صحیح نیت کے ساتھ مندرجہ بالا خطوط پر اس کی مکمل اوور ہالنگ نہ ہو، اسے اسلامی کہنا محض مذاق ہو گا۔ عدالتی نظام میں یہ تبدیلیاں کون لائے گا اور یہ کیسے آئیں گی؟ اس سوال کا جواب ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اس پر غور و تدبر فرمائیں۔ ہم نے اگر یہاں یہ بحث چھیڑ دی تو بات زیر بحث موضوع سے دور نکل جائے گی اور طویل بھی ہو جائے گی۔
3. مولانا صوفی محمد اور طالبان کا تصورِ شریعت:
اس وقت تک جو گفتگو ہوئی، اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر مولانا صوفی محمد کے الفاظ اور