کتاب: محدث لاہور 329 - صفحہ 10
لہٰذا یہی خرابی انہی وکلا کے ذریعے ججوں کی صورت میں برابر قائم رہتی ہے۔ 14. آئین میں اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ ہماری اسمبلیوں میں ایسے لوگ بھی پہنچیں جو اسلامی شریعت اور فقہ کے ماہر ہوں تاکہ وہ قانون سازی میں فعال کردار ادا کر سکیں جب کہ عام ارکانِ اسمبلی کی تعلیم و تربیت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ اسلامی تناظر میں قانون سازی کر سکیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آئین میں رکن اسمبلی بننے کے لئے جو شرائط مقرر کی گئی ہیں ، ان پر کہیں بھی عمل نہیں ہوتا۔ نہ الیکشن کمیشن ان پر عمل کرواتا ہے اور نہ عدالتیں بلکہ حکومتیں بھی اس میں دلچسپی نہیں لیتیں ۔ 15. پاکستان میں 1979ء سے حدود قوانین نافذ ہیں ، لیکن ان پر عمل در آمد نہیں ہوتا۔ آج تک کسی چور کے ہاتھ اور کسی ڈاکو کے پاؤں نہیں کٹے، کسی زانی کو کوڑے نہیں لگے اور کسی زای کو رجم نہیں کیا گیا حالانکہ معاشرے میں ان جرائم کی بھرمار ہے۔ ان قوانین کا البتہ یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ پولیس کے رشوت کے ریٹ بڑھ گئے ہیں ۔ 16. انصاف دلانے میں پولیس کا بنیادی کردار ہوتا ہے، لیکن ہماری پولیس کا رویہ اتنا ایمان شکن ہے کہ الامان والحفیظ۔ کسی بھی پاکستانی سے اپنے شیر جوانوں کے بارے میں رائے لے لیجئے وہ کانوں کو ہاتھ لگائے گا۔ 17. ہماری جیلوں کا حال اتنا ناگفتہ بہ ہے کہ وہاں فرشتہ بھی چلا جائے تو عادی مجرم اور شیطان بن کر نکلتا ہے جبکہ جیلیں بھی نظامِ دل کا ایک حصہ ہوتی ہیں اور ان کا کردار بھی صحیح ہونا ضروری ہے۔ ان ساری کوتاہیوں کی موجودگی میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا نظامِ عدل اسلامی ہے اور اسلامی تقاضوں پر پورا اُترتا ہے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ججوں کی اکثریت سیکولر، وکیلوں کی اکثریت مادّہ پرست اور ہماری عدالتوں کا مجموعی ماحول غیر اسلامی ہے۔ اس کے باوجود اگر ہم اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنے پر تیار نہیں اور اپنے نظامِ عدل کو اسلامی کہنے پر مصر ہیں تو کسی کو سیاہ کو سفید کہنے سے کون روک سکتا ہے؟ لیکن کسی کے سیاہ کو سفید کہنے سے سیاہ سفید ہو نہیں جاتا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم پچھلے ساٹھ سال میں اس عدالتی ماحول کے عادی ہو گئے ہیں اور سٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں ، ورنہ اگر ہم تجزیاتی یا تنقیدی نگاہ سے دیکھیں تو موجودہ عدالتی