کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 72
ہو جائیں گے تو اس پراُنہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا ۔‘‘
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
لو أن الناس أجازوا بینہم الجلود حتّٰی تکون لہا سکۃ وعین لکرہتہا أن تُباع بالذہب والورق نظرۃ (المدونۃ الکبرٰی۔ التأخیر في صرف الفلوس)
’’اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید وفروخت کورائج کر دیں یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کر جائیں تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو اُدھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا ۔‘‘
یعنی اگر چمڑا بحیثیت زر رائج ہو جائے تو اس پر بھی وہی احکام جاری ہو ں گے جو درہم ودینار پر ہوتے ہیں ۔ علامہ ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ خراسان کے امیر غطریف بن عطاء کندی کی طرف منسوب غطارفۃ نامی دراہم جن میں ملاوٹ زیادہ اورچاندی کم ہوتی تھی، کی بحث میں رقم طراز ہیں :
وَذَکَرَ الْوَلْوَالِجِيُّ أَنَّ الزَّکَاۃَ تَجِبُ فِي الْغَطَارِفَۃِ إذَا کَانَتْ مِائَتَیْنِ؛ لِأَنَّہَا الْیَوْمَ مِنْ دَرَاہِمِ النَّاسِ وَإِنْ لَمْ تَکُنْ مِنْ دَرَاہِمِ النَّاسِ فِي الزَّمَنِ الْأَوَّلِ وَإِنَّمَا یُعْتَبَرُ فِي کُلِّ زَمَانٍ عَادَۃُ أَہْلِ ذَلِکَ الزمان (البحر الرائق باب زکوۃ المال)
’’ولوالجی نے ذکر کیا ہے کہ غطارفہ جب دو سو ہوں تو ان میں زکوٰۃ واجب ہو گی،کیونکہ اگرچہ پہلے زمانے میں یہ لوگوں کے درہم نہیں تھے مگر آج کل یہی ہیں ۔ ہر دور میں اس زمانے کا رواج معتبر ہوتا ہے۔‘‘
اس سے یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ شرعی لحاظ سے زر کے انتخاب میں سونے چاندی کی پابندی نہیں ہے، قیمتوں کو چانچنے کے لئے کسی بھی چیز کو معیار بنایا جا سکتا ہے بشرطے کہ اسے معاشرہ میں قبولیت حاصل ہو۔
زر صرف حکومت جاری کر سکتی ہے
اگرچہ شریعت نے زر کے انتخاب میں کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی، لیکن زر جاری کرنے کا اختیار صرف حکومت کو دیا ہے کیونکہ مالیاتی لین دین کا مکمل نظام زر کی اساس پر ہی رواں دواں ہے اور اگرہرکس و ناکس کو حسب ِمنشا زر جاری کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس