کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 71
میں ۔ چنانچہ فقہا کی عبارات میں سونے چاندی کے لئے النقدان کا لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے ۔ 2. سونے چاندی کے سکوں کے لئے چاہے وہ عمدہ ہوں یا غیر عمدہ۔ سونے چاندی کے علاوہ کسی دوسری دھات سے بنے ہوئے سکوں کو فُلُوْس کہتے ہیں ۔اس معنی کے مطابق فلوس نقد میں شامل نہیں ۔ 3. ہر وہ چیز جو بطورِ آلۂ تبادلہ استعمال ہو، چاہے وہ سونے کی ہو یا چاندی، چمڑے،پیتل اورکاغذ وغیرہ کی شکل میں ، بشرطے کہ اس کوقبولیت ِعامہ حاصل ہو۔عصر حاضر میں نقد کا لفظ اس تیسرے معنی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے ۔ ( الموسوعۃ الفقہیۃ:۴۱/۱۷۳ ) ٭ جبکہ اقتصادی ماہرین نقد(زَر)کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں : إن للنقد ثلاث خصائص متی توفرت في مادۃ مَّا، اعتبرت ہذہ المادۃ نقدًا الأولیٰ: أن یکون وسیطا للتبادل، الثانیۃ: أن یکون مقیاسا للقیم، الثالثۃ: أن یکون مستودعًا للثروۃ۔ (مجلۃ البحوث الإسلامیۃ: عدد۱/ ص۲۰۰] ’’زرکی تین خصوصیات ہیں جس مادہ میں بھی وہ پائی جائیں ، وہ زر شمار ہو گا : 1. ذریعۂ مبادلہ ہو ، 2. قیمتوں کا پیمانہ ہو، 3. دولت محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہو۔‘‘ بلاشبہ اسلام کے ابتدائی ادوار میں مالیاتی لین دین سونے، چاندی کے سکوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا اورسونے ،چاندی کی زر ی صلاحیت بھی مسلمہ ہے، لیکن شریعت نے زر کے لئے سونے ،چاندی کے سکوں کی شرط نہیں لگائی بلکہ اس معاملے میں بڑی وسعت رکھی ہے۔مشہور مؤرخ احمد بن یحییٰ بلاذری کے بقول حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اونٹوں کی کھال سے درہم بنانے کا ارادہ کر لیا تھا مگر اس خدشے سے اِرادہ ترک کر دیا کہ اس طرح تو اونٹ ہی ختم ہو جائیں گے۔ جیسا کہ بلاذری نے ان کا یہ قول نقل کیاہے: ہممتُ أن أجعل الدراہم من جلود الإبل فقیل لہ إذا لابعیر فأمسک [فتوح البلدان: ج۳/ص۵۷۸] ’’میں نے اونٹوں کے چمڑوں سے درہم بنانے کا ارادہ کیا۔ ان سے کہا گیا: تب تو اونٹ ختم