کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 70
فقہ واجتہاد حافظ ذوالفقار علي ابو ہریرہ شریعہ کالج، لاہور اسلام کا نظریۂ زر اورکاغذی کرنسی کی حقیقت چونکہ لوگوں کے ما بین لین دین کے تمام معاملات میں مرکز و محور زَر ہی ہوتاہے، اس لئے ہر معاشی نظام میں زر اور اس کے متعلقات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ زَر کی اس اہمیت کے پیش نظر علماے اسلام نے بھی اپنی تحریری کاوشوں میں اس موضوع کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اسلام کے قرونِ اُولیٰ میں قانونی زر سونے،چاندی کے سکوں (دنانیر و دراہم) کی شکل میں ہوتاتھا مگر دورِ حاضر میں تمام ممالک کے مالیاتی نظام کی اساس کاغذی کرنسی ہے، سونے چاندی کے سکے پوری دنیا میں کہیں استعمال نہیں ہو تے۔ اسلامی نقطہ نظر سے زر کی حقیقت اور مروّجہ کرنسی نوٹوں کی شرعی حیثیت کیاہے؟ ذیل میں اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں : زرکی حقیقت زر کوعربی میں نَقْدکہتے ہیں اور مشہور لغت المعجم الوسیطمیں نقد کا معنی یوں لکھا ہے: النقد: (في البیع) خلاف النسیئۃ ویقال: درہم نقد: جید لا زیف فیہ (ج) نقود۔والعملۃ من الذھب أو الفضۃ وغیر ھما مما یتعامل بہ وفن تمییز جید الکلام من ردیئہ،وصحیحہ من فاسدہ (ص ۹۴۴) ’’خرید و فروخت میں نقد کا معنی ہوتا ہے: وہ شے جو اُدھار نہ ہو ، نیز عمدہ قسم کا درہم جس میں کھوٹ نہ ہو، اس کو’درہم نقد‘ کہا جاتا ہے۔اس کی جمع نقود آتی ہے۔ اور نقد اس کرنسی کو کہتے ہیں جس کے ذریعے لین دین ہوتا ہو، خواہ سونے کی بنی ہو یا چاندی کی یاان دونوں کے علاوہ کسی دوسری چیز سے۔ عمدہ اور ردّی، صحیح اور فاسد کلام کے مابین امتیاز کرنے کے فن کو بھی ’نقد‘ کہتے ہیں ۔‘‘ فقہی لٹریچر میں نقد کا لفظ تین معانی کے لئے آتا ہے: 1. سونے چاندی کی دھاتیں خواہ وہ ڈلی کی شکل میں ہوں یا ڈھلے ہوئے سکوں کی صورت