کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 66
4. نبوت اور علومِ نبوت کی صداقت کے اسباب مہیا کرنا بھی لازمی تھے تاکہ لوگوں کے ذہنوں کے شکوک و شبہات کو دور کیا جاسکے، اگرچہ عہد ِرسالت کے مسلمانوں کا ایمان بڑا مضبوط تھا ،لیکن وحی خواب کے اس اُسلوب سے دو طرح کا فائدہ حاصل ہوا: اس دور کے مسلمانوں کی مضبوطی کا امتحان لیا گیا اور آئندہ آنے والے اَدوار کے مسلمانوں میں علومِ نبوت کے بارے میں اوہام و شکوک کو رفع کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ اُنہیں اپنے دور کے احوال میں صراطِ مستقیم کی تلاش کے لئے حساس کر دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے اَدوار کے آثار و علائم بتائے اور فتنوں کی پیش گوئیاں کیں ۔ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ استیقظ النبي صلی اللہ علیہ وسلم ذات لیلۃ، فقال: سبحان ﷲ ماذا أنزل اللیلۃ من الفتن وماذا فتح من الخزائن،أیقظوا صواحب الحجر، فَرُبَّ کاسیۃ في الدنیا عاریۃ في الآخرۃ [1] ’’ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نیند سے جاگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! آج رات کتنے فتنے نازل کئے گئے اور کتنے خزانے فتح کئے گئے۔ حجرے والیو! جاگو، کتنی ہی عورتیں ہوں گی جو دنیا میں کپڑے پہنتی ہیں مگر آخرت میں ننگی ہوں گی۔‘‘ اس باب میں زینب بنت جحش کی حدیث بھی آتی ہے جو اہل عرب کے بارے میں ہے۔[2] 5. اسی طرح کسی شخص کی دلجوئی کرنا اللہ کو پسند ہوتا تو بذریعہ خواب اس کے اَحوال کی وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کر دی جاتی۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خواب بیان فرمایا: (( دخلتُ الجنۃ فإذا أنا بقصر من ذھب؟ فقلت: لمَن ھذا؟ ‘ فقالوا: لرجل من قریش فما منعني أن أدخلہ یا ابن الخطاب إلا ما أعلم من غیرتک)) قال: وعلیک أغار یا رسول ﷲ؟[3] ’’ میں جنت میں داخل ہوا۔اچانک میں نے سونے کا محل دیکھا۔میں نے پوچھا:یہ کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: قریش کے ایک آدمی کا ہے۔اے ا بن خطاب:مجھے تیری غیرت نے اس محل میں داخل ہونے سے روک دیا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیامیں آپ پر غیرت کھاؤں گا۔‘‘